’چین میں مسلم اقلیتوں کے لیے سیاسی تربیتی کیمپوں کا قیام‘
22 جون 2018معروف محقق ایڈریان زینس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایسے کیمپوں کے حوالے سے اطلاعات مقامی میڈیا سے دستیاب ہوئی ہیں۔ ان میں سرکاری میڈیا کی ملفوف رپورٹوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطحی حکام کے دوروں اور اُن کے بیانات سے متعلق رپورٹیں بھی شامل ہیں۔ ایسا بھی بتایا جاتا ہے کہ چینی حکام سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کو سفری پاسپورٹ جاری کرنے سے قبل اُن کے ڈی این اے کے نمونے کا ریکارڈ بھی جمع کر رہی ہے۔
ایڈریان زینس کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کو جبر کے حالات کا سامنا ہے اور اس تناظر میں حکومت نے کیمپوں کو تین مختلف سطحوں پر قائم کر رکھا ہے۔ ان کیمپوں کو دیہات، قصبے اور شہر کے لیول پر قائم کیا گیا ہے۔ ان میں رکھے جانے والے افراد کے ساتھ سلوک بھی اُن کے عقائد کی شدت کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ ان کیمپوں سے مقامی حکومت بیجنگ کو ایسا تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔
ریسرچر زینس کے مطابق ان کیمپوں کا انتظام و انصرام کا معاملہ خفیہ رکھا گیا ہے۔ سن 2017 میں ان کیمپوں کے لیے ملازمتیں فراہم کی گئی تھیں۔ ان میں ڈرائیور، ٹیچر، سکیورٹی اہلکار یا تربیت دینے والوں کی نوکریاں عام کی گئی تھیں۔ ان نوکریوں کے لیے حکام نے کوئی بنیادی تجربہ بھی طلب نہیں کیا اور اسی بات نے انہیں مشکوک کیا تھا۔ ملازمتوں کے لیے ہان نسل کے چینیوں کو ترجیح دی گئی تھی۔
انہی فراہم کردہ نوکریوں سے یہ اندازے لگائے گئے کہ سیاسی تربیت کے کیمپوں کی تعمیر نو کا سلسلہ شروع ہے۔ ایسے کیمپوں کے لیے دیواروں کے ساتھ خاردار باڑ، مخصوص کھڑکیاں اور سکیورٹی کیمرے بھی نصب کرنے کی درخواست بھی حکامِ بالا کو بھیجی گئی ہے۔ اس باعث خیال کیا گیا ہے کہ مقامی حکومت کی توجہ زیادہ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کی سیاسی تربیت کرنے پر مرکوز ہے۔
ایڈریان زینس کے مطابق ایسی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق کم سے کم دو لاکھ افراد جو ذہنی تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ حتمی تعداد کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
ریڈیو فری ایشیا کے مطابق سیاسی تربیت کے ایسے بعض کیمپوں میں چھ ہزار تک لوگ بند کیے گئے ہیں۔ جبکہ بیرون ممالک ایغور گروپوں کی بعض افشا ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ذہنی تعلیم نو کے اِن کیمپوں میں نو لاکھ کے قریب افراد مقید ہیں۔