’کراس کرنٹ‘: فیچر فلم یا ایک پیار بھری نظم
16 فروری 2016چینی ڈائریکٹر ژانگ چاؤ کی اس فلم کو پیر 15 فروری کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ اس فلم میں ہیرو کا کردار چِن ہاؤ نے ادا کیا ہے۔ فلم میں اُس کا کردار ایک شکستہ مال بردار جہاز کے کپتان کا ہے، جو چھ ہزار تین سو کلومیٹر طویل دریائے یانگزے میں رواں دواں ہے۔ اس جہاز پر کوئی پُر اَسرار ساز و سامان ہے، جسے اِس نوجوان کپتان کو منزل تک پہنچانا ہے۔
یہ فلم حقیقی اور غیر حقیقی واقعات کا سنگم ہے۔ آبی جہاز کا کپتان ایک خوبصورت لڑکی کی بھی تلاش میں ہے۔ یہ لڑکی، جو شاید محض ایک تصور بھی ہو سکتی ہے، دریا کے اس سفر کے دوران کئی مرتبہ اُس سے ملنے کے لیے آتی ہے، وہ اکٹھے پیار بھری باتیں بھی کرتے ہیں لیکن وہ پھر منظر سے غائب بھی ہو جایا کرتی ہے۔
اس دریائی سفر کے دوران یہ نوجوان کپتان شاعری کے ایک مجموعے میں سے پڑھتا بھی رہتا ہے۔ اس مجموعے کو اس آبی جہاز کے ایک مخصوص کیبن میں چھپا کر رکھا گیا ہوتا ہے۔ اس دوران اسکرین پر چینی تاریخ کے مشہور شعراء کے اشعار نمودار ہوتے رہتے ہیں۔
ڈائریکٹر ژانگ چاؤ نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’تانگ شاہی خاندان اور دیگر اَدوار سے لے کر دورِ حاضر تک چینی شاعری کی ایک کلاسیکی روایت چلی آ رہی ہے، جس میں ان شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں دریائے یانگزے کو موضوع بنایا ہے۔ لیکن چین میں بسنے والوں کے نزدیک اس دریا کی اہمیت ثقافت اور شاعری سے کہیں زیادہ ہے۔ مختلف تاریخی اَدوار میں اس دریا کے آس پاس کا علاقہ سب سے زیادہ خوشحال رہا ہے اور یوں یہ علاقہ ماضی اور حال کے درمیان ایک پُل کا بھی کام دیتا ہے۔‘‘
دورِ حاضر میں اس دریا کے کناروں پر واقع شہروں کی ترقی اور تین گھاٹیوں والے مشہورِ زمانہ ڈیم کی وجہ سے اس کی حیثیت میں بے پناہ تبدیلی آئی ہے۔ اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کیسے اس ڈیم کے مکمل ہونے پر بہت سے قدیم تاریخی قصبے اور دیہات زیرِ آب آ کر صفحہٴ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مِٹ گئے تھے۔
اس فلم میں تین گھاٹیوں والے ڈیم کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف قدیم تاریخی علاقے زیرِ آب ہو کر مِٹ گئے بلکہ اس فلم کی کہانی بھی آگے بڑھنے سے رُک جاتی ہے۔ اس فلم کا مقصد استعاراتی زبان میں یہ دکھانا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات بدل جاتے ہیں بلکہ محبت کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔