کربلا میں چار بم دھماکوں میں سولہ عراقی ہلاک
25 ستمبر 2011دہشت گردی کی اس واردات میں قریب ایک سو افراد زخمی ہوئے اور قریبی عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ حملے کے بعد سکیورٹی دستوں نے کربلا میں داخلے اور شہر سے نکلنے کے تمام راستوں پر ناکہ بندی کردی ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پہلا دھماکہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے نو بجا کیا گیا، جب بہت بڑی تعداد میں لوگ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ پولیس ذرائع اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کے مطابق دھماکے کے بعد جیسے ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے دستے وہاں پہنچے دو مزید بم دھماکے ہوگئے۔
کربلا میں محکمہء صحت کے سربراہ الا حامودی نے ابتدائی طور پر نو افراد کی ہلاکت اور 99 کے زخمی ہونے کی خبر دی تھی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ دھماکہ اتنا زور آور تھا کہ قریب موجود بعض عمارتیں مکمل طور پر بیٹھ گئیں۔ اس بنیاد پر ہلاکتوں میں اضافے کے خدشات ابھر رہے ہیں۔ کربلا شہر شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی لیے انتہائی مقدس ہے۔ بغداد کے جنوب مغرب میں واقع اس شہر میں گزشتہ ہفتے ایک مبینہ خودکش حملے میں چار افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
ادہر مغربی شہر رمادی میں سڑک کے کنارے نصب ایک بم پھٹنے سے تین افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ایک کم سن بچی سمیت چھ افراد زخمی بھی ہوئے۔ واضح رہے کہ یہ شہر امریکہ مخالف سنی عسکریت پسندوں کا گڑھ رہا ہے۔ الانبار صوبے کے اس دارالحکومت میں 2006ء سے مقامی قبائلی امریکیوں کے ساتھ مل کر عسکریت پسندوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد سے رواں سال میں پر تشدد واقعات میں قدرے کم شدت دیکھی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں 2006ء اور 2007ء خونریز ترین سال رہے تھے۔ رواں سال اگست میں قریب ڈھائی سو عراقی شہر بد امنی کی نذر ہوچکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں سال دہشت گردانہ حملوں میں مقامی حکومتوں کے دفاتر کو بالخصوص نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عراق میں سُنی، شیعہ اور کردوں کی نمائندگی والی حکومت خاصی کمزور تصور کی جاتی ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ساتھ طے شدہ ایک معاہدے کے تحت عراق متعین امریکی فوجی رواں سال کے آخر میں عراق سے نکل جائیں گے۔
عراقی اور امریکی عہدیداروں کا دعویٰ ہے مقامی سکیورٹی فورس سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم عراقیوں کی ایک بڑی تعداد اس دعوے پر بہت زیادہ باور نہیں کرتی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عصمت جبیں