کرد باغیوں کا ترکی سے انخلا شروع
8 مئی 2013انقرہ سے ملنے والی رپورٹوں میں آج بدھ کے روز کردوں کی ایک سیاسی جماعت کے ایک رہنما کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ انخلا وہ سب سے اہم مرحلہ ہے جو کرد باغیوں کے ترک ریاست کے ساتھ قیام امن کے عمل کا حصہ ہے۔
اس تصفیے کے ذریعے ترک حکومت ملک میں کرد علیحدگی پسندی کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اس طرح کرد باغیوں کی اس مسلح تحریک کا خاتمہ ہو سکے گا، جو دنیا کی سب سے خونریز باغی تحریکوں میں شمار ہوتی ہے۔
ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی یا PKK نے اسی سال مارچ میں اپنی طرف سے فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر بھی اتفاق کر لیا تھا کہ وہ ترک ریاستی علاقے سے اپنے مسلح جنگجوؤں کو واپس بلا لے گی۔
پی کے کے نے یہ اعلان اپنے زیر حراست رہنما عبداللہ اوئجلان کی ہدایت پر کیا تھا۔ عبداللہ اوئجلان اس وقت ترکی میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ انقرہ حکومت کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات میں بھی مصروف ہیں کہ کس طرح ترکی میں اس 30 سالہ گوریلا جنگ کو ختم کیا جا سکتا ہے جو اب تک ہزار ہا انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ درست ہے کہ کردستان ورکرز پارٹی کے مسلح ارکان نے ترکی سے اپنی شمالی عراق منتقلی شروع کر دی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ترک حکومت کا ایک مطالبہ ماننے سے انکار بھی کر دیا ہے۔
انقرہ حکومت کا مطالبہ تھا کہ یہ باغی ترکی سے رخصت ہونے سے پہلے اپنے ہتھیار پھینک دیں۔ لیکن پی کے کے کی قیادت نے، جو کرد نسلی اقلیت کے لیے زیادہ حقوق اور خود مختاری کی خاطر انقرہ کے ساتھ عشروں تک لڑتی رہی ہے، ترک حکومت کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی لیے آج بدھ کو جب PKK کے مسلح ارکان نے ترکی سے رخصت ہونا شروع کیا، تو ایسے تمام باغی اپنے ہتھیار اپنے ساتھ لیے ہوئے تھے۔
کردستان ورکرز پارٹی کے موجودہ کمانڈر مراد کارائیلان کہہ چکے ہیں کہ اس تحریک کے ارکان خود کو اس وقت غیر مسلح نہیں کریں گے جب تک کہ انقرہ حکومت ملک میں جمہوری اصلاحات متعارف کراتے ہوئے کردوں کو زیادہ حقوق نہیں دیتی اور ساتھ ہی ان تمام باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان نہیں کر دیتی جو اس وقت ترک حکام کی حراست میں ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی کے انہی زیر حراست یا سزا یافتہ قیدیوں میں اس تحریک کے بانی عبداللہ اوئجلان بھی شامل ہیں جو سالہا سال تک کرد باغیوں کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
ترکی میں ایک کرد نواز سیاسی جماعت کے شریک سربراہ گُلتان کیسیناک نے آج بتایا کہ ان کرد باغیوں کے پہلے گروپ نے اب ترک علاقے سے شمالی عراق میں اپنے ٹھکانوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔
ij / ia (AP)