کشمیر: صدر راج منسوخ اور نئی حکومت کی تشکیل کا آغاز
14 اکتوبر 2024بھارت کی مرکزی حکومت نے اتوار کے روز ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں نئے وزیر اعلی کی تقرری سے قبل صدر راج کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے حکم نامہ بھارت کی صدر دروپدی مرمو کی جانب سے جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ جموں وکشمیر کی تنظیم نو سے متعلق 31 اکتوبر سن 2019 کو جو حکم جاری کیا گیا تھا، اسے "وزیر اعلیٰ کی تقرری سے پہلے فوری طور پر منسوخ کر دیا جاتا ہے۔"
واضح رہے کہ سن 2018 میں، اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے، کشمیر میں گورنر راج کے تحت چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا تھا۔ انہوں نے ہی ریاست میں مرکزی حکومت کے نظام کے نفاذ کے اعلان پر دستخط کیے تھے۔
علاقائی انتخابات کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں، میر واعظ عمر فاروق
اس سے قبل اسی برس جون میں محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت سے بی جے پی نے حمایت واپس لے لی تھی، جس کے بعد ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پھر جموں وکشمیر سیاسی بحران میں ڈوبتا چلا گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کو پانچ اگست 2019 کو منظور کروایا اور اس طرح آئین کی دفعہ 370 کے تحت اسے حاصل خصوصی اختیارات کو ختم کر دیا اور ریاست کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر: سخت سکیورٹی میں علاقائی انتخابات کا دوسرا مرحلہ
نئی حکومت کی تشکیل کی کوشش
بھارت نے حال ہی میں متنازعہ خطے جموں وکشمیر میں دس برس کے بعد اسمبلی کے انتخابات مکمل کیے، جس میں مقامی جماعت نیشنل کانفرنس نے کانگریس پارٹی کے اتحاد سے کامیابی حاصل کی ہے، جو اب نئی حکومت بنانے کی تیاری میں مصروف ہے۔
امکان ہے کہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ جموں وکشمیر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ انہیں اتحاد کا سربراہ منتخب کیا جا چکا ہے۔
جموں وکشمیر کی اسمبلی میں 90 سیٹیں ہیں، جس میں سے نیشنل کانفرنس نے 42 نشستیں حاصل کیں جبکہ اس کے اتحادی جماعت کانگریس نے پانچ اور سی پی ایم نے ایک سیٹ حاصل کی ہے۔ دیگر چھ آزاد امیدواروں نے بھی نیشنل کانفرنس کو اپنی حمایت کا عہد کیا ہے، جس سے اتحاد کی کل سیٹیں 55 تک پہنچ گئی ہیں۔ بی جے پی کو ان انتخابات میں صرف 29 سیٹیں ملی تھی۔
جموں کشمیر کے انتخابات میں ماحولیاتی بحران نظر انداز کیوں؟
اقتدار کی کشمکش کا اندیشہ
بھارت نے جموں و کشمیر میں انتخابات تو کروائے ہیں، تاہم یہ خطہ اب بھی مرکز کے زیر انتظام ہے اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کی تشکیل کے بعد بھی چونکہ زیادہ اختیارات گورنر کے پاس ہیں، اس لیے اقتدار پر کنٹرول کی کشمکش جاری رہے گی۔
مودی حکومت نے کشمیر میں اپنے نمائندے، لیفٹیننٹ گورنر کو اتنے اختیارات دے رکھے ہیں کہ کوئی بھی نئی حکومت اہم فیصلوں کے لیے دہلی کی حکومت اور گورنر کی مرضی کی محتاج ہو گی۔
کشمیر کی ہندو برادری انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرعزم
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما التجا مفتی کے مطابق "وزیر اعلی کی حیثیت بس ایک ربڑ اسٹیمپ کی حکومت جیسی ہو گی۔"
نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس "اسمبلی کی حیثیت ایک قبل قدر میونسپلٹی سے زیادہ تو نہیں ہے، تاہم اس اسمبلی سے جو آواز اٹھے گی، وہ معنی خیز ہو گی۔"
امکان ہے کہ اسی ہفتے کشمیر میں ایک نئی حکومت تشکیل پا جائے گی۔