کلسٹر بموں پر بین الاقوامی پابندی کی شروعات
1 اگست 2010اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے پہلی اگست سے کلسٹر بموں کی پروڈکشن اور فروخت پر بین الاقوامی پابندی کے معاہدے کے اطلاق کو استحسانی اقدام قرار دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس بین الاقوامی قانون کا معرض وجود میں آنا اقوام کا کلسٹر بموں سے نفرت کا اظہار ہے۔ بان کی مون کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ قانون مختلف حکومتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور اقوام متحدہ کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ بم زمین پر انسانیت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
ریڈ کرس اور دوسرے اہم اداروں نے ایک بار پھر بڑی طاقتوں سے کہا ہے کہ وہ کلسٹر بموں کی پابندی کے کنوینشن پر دستخط کر کے اس کو مزید تقوییت فراہم کریں۔ سن 2008 میں طے پانے والے معاہدے کو 107 ملکوں کی توثیق حاصل ہو چکی ہے۔ کلسٹر بموں پر پابندی کے معاہدے کو اس وقت بین الاقوامی حیثیت اور اہمیت حاصل ہو گئی تھی، جب 30 ملکوں کی جانب سے اِس کی توثیق کر دی گئی تھی۔ اس ٹریٹی کی توثیق کرنے والے ممالک میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے 29 اراکین میں سے بائیس شامل ہیں۔ ان میں خاص طور پر جرمنی، برطانیہ اور فرانس نمایاں ہیں۔ اس ٹریٹی پر دستخط کرنے والوں میں افغانستان بھی شامل ہے۔
اس کی توثیق نہ کرنے والے اہم ملکوں میں امریکہ، روس، چین اور اسرائیل نمایاں ہیں۔ ٹریٹی کی مخالفت کرنے والوں میں بھارت، پاکستان اور برازیل کے نام بھی آتے ہیں۔ ان ملکوں کی جانب سے کلسٹر بموں کے اِس کنوینشن کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ دنیا بھر میں امریکہ کلسٹر بموں کے ذخیرے میں سب سے آگے ہے۔ اس کے پاس 800 ملین کلسٹر بم ہیں۔
کلسٹر بم ایک عجیب سا اور انتہائی ہلاکت خیز بم ہے۔ یہ کئی چھوٹے چھوٹے بموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کئی بم پلاسٹک بیگ کی صورت میں ہوتے ہیں۔ کچھ حصہ ٹینس گیند جیسے بموں سے بھرا جاتا ہے۔ کلسٹر بم کو توپ سے چھوڑا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات جنگی طیاروں سے پھینکا بھی جاتا ہے۔ جب کلسٹر بم چلتا ہے، تو اس کے بعض حصے تو فوراً پھٹ جاتے ہیں جبکہ کئی دیگر حصے برسوں کسی کی ضرب یا ٹھوکر کے منتظر رہتے ہیں۔ کئی ملکوں میں کلسٹر بموں کے حصے تیس سالوں بعد بھی دستیاب ہوئے تھے۔ ان میں لاؤس، کمبوڈیا اور ویتنام کے نام آتے ہیں۔ ویتنام میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور سالانہ بنیادوں پر تین سو افراد ان چھپے ہوئے کلسٹر بموں کے ٹکڑوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بم امریکہ کی جانب سے ویتنام جنگ کے دوران استعمال کئے گئے تھے۔
بلقان خطے میں خانہ جنگی کے دوران بھی کلسٹر بموں کا استعمال دیکھا گیا اور لبنان میں بھی سن 2006 کے بعد کلسٹر بم استعمال کئے گئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جنوبی یمن میں گزشتہ سال امریکی بحریہ کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف کلسٹر بم پھینکنے سے پچپن افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان میں بیشتر سویلین تھے۔
جاپان کے تین بڑے بینکوں نے کلسٹر بم بنانے والے بین الاقوامی اداروں کو مالی معاونت فراہم کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کلسٹر بموں پر پابندی کی حامی سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ مئی سن 2007 کے بعد سے اہم اور بڑے مالی بینکوں کی جانب سے کلسٹر بموں کی پروڈکشن کرنے والے اداروں کو 43 ارب ڈالر فراہم کئے جا چکے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی