کمپنیوں کی اجارہ داری کے خلاف قوانین مزید سخت کرنے کا فیصلہ
14 جون 2022جرمن وزارت اقتصادیات کی جانب سے اتوار کو اپنی ویب سائٹ پر مشتہر کیے گئے اقدامات میں کارٹیل نما ڈھانچے توڑنے، غیر قانونی گٹھ جوڑ کے ذریعے زائد منافع خوری روکنے اور تحقیقات کے دائرے میں مزید وسعت لانا شامل ہے۔
یہ اقدام جرمن صارفین کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی حکومتی کوششوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد کیا گیا ہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے دنیا بھر کی طرح جرمنی میں بھی گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیوں کے لیے ایندھن فراہم کرنے والی تمام پانچ بڑی کمپنیوں (شیل، بی پی-ارال، ایسسو، جیٹ اور ٹوٹل) نے ایندھن کی قیمتوں میں یکساں طور پر اضافہ کیا ہے۔ جرمن حکومت کی طرف سے یکم جون سے تین مہینوں کے لیے پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکسوں میں کمی کے باوجود اس کا فائدہ عام صارفین کو نہیں پہنچ سکا۔
تیل کمپنیوں یا صارفین کی مدد ؟
ایندھن کی قمیتوں میں تین ماہ کی ٹیکس کٹوتی پر جرمن ٹیکس دہندگان کی تین ارب ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں اصولی طور پر گیس سٹیشنوں پر قیمتوں میں فی لیٹر 0.37 ڈالر تک کی کمی آنی چاہیے تھی۔ تاہم یقینی طور پر ایسا نہیں ہوا۔ جرمن وزیر اقتصادیات سمیت بہت سارے ناقدین نے جرمنی میں تیل کی بڑی کمپنیوں پر ٹیکس کی مالی اعانت سے فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا ہے۔
اس بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں لیکن جرمن وزیر اقتصادیات کا اندازہ ہے کہ یہ کمپنیاں اپنی بچت کا صرف نصف حصہ صارفین تک پہنچا رہی ہیں۔
تاہم جرمن شہر میونسٹر میں ایف ایچ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنس کے ایک ماہر اقتصادیات جوہانس شوانِٹز کے تخمینے کے مطابق تیل کمپنیاں اس ٹیکس چھوٹ کے ذریعے دو تہائی سے زیادہ بچت کر رہی ہیں۔ شوانِٹز کا کہنا ہے کہ پٹرول کی مد میں ہونے والی بچت کے 35 سینٹ میں سے صرف 10 سینٹ تک کی رعایت صارفین تک پہنچ رہی ہے جبکہ تیل کمپنیاں لاکھوں ڈالر کا اضافی منافع کما رہی ہیں۔
ایندھن کی قمیتوں پر ٹیکس چھوٹ دینے کو اب ایک برا فیصلہ سمجھا جا رہا ہے اسی لیے جرمن حکومتی اتحاد میں شامل دو جماعتوں گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹس نے اس معاملے پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اقتصادیات ہیبک کا تعلق گرین پارٹی سے ہے جبکہ وزیر خزانہ کرسچن لِنڈنر فری ڈیمو کریٹس کی قیادت کرتے ہیں۔ اب ہیبک موجودہ صورتحال کو اجارہ داری کے خلاف قوانین میں اصلاحات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ان کی اصلاحات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکام کو چند بڑی کمپنیوں کے زیر تسلط بازاروں میں مداخلت کی اجازت دی جائے، چاہے وہاں مسابقتی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہ بھی ہو۔ جرمن وزارت اقتصادیات کے مطابق یہ ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے کہ چند کمپنیوں نے ملی بھگت سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔ وزارت اقتصادیات کو توقع ہے کہ کمپنیوں کی اجارہ داری توڑنے کی دھمکی کے نتیجے میں چند کمپنیاں ایندھن کی مارکیٹ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے پر مجبور ہوں گی۔
تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ہیبک کی سخت اصلاحات کے نتیجے میں چند کمپنیاں اپنے کاروبار کی جزوی بندش پر مجبور ہو سکتی ہیں۔ اجارہ داری کے خلاف قوانین کے ایک ماہر مشال برگمان کا کہنا ہے کہ ہیبک کا اقدام کسی کمپنی کو محض اس لیے بھی سزا دے سکتا ہے کہ وہ غیر معولی طور پر کامیاب یا منافع بخش ہے۔ برگمان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہیبک کا منصوبہ کس طرح قابل عمل ہو سکتا ہے؟
ہیبک کے منصوبے کا ایک اور اہم نکتہ ان قانونی رکاوٹوں کو کم کرنا ہے، جوکمپنیوں کے خلاف اضافی منافع خوری ثابت کرنے کے لیے درکار ہیں۔ ان کمپنیوں کے خلاف منافع خوری کا ثبوت مہیا کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ وزارت اقتصادیات کو امید ہے کہ اس عمل کو سہل بنانے سے یہ کمپیناں خود ہی سنبھل جائیں گی اور اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ وہ کسی قانون شکنی کا حصہ نہیں۔
بڑی مچھلیوں کا شکار
ہیبک کے منصوبے کا تیسرا حصہ تحقیقات کو مزید وسعت دینا اور مؤثر بنانا ہے۔ اجارہ داری کے خلاف حکام کو تحقیقات کے لیے براہ راست نئے ضابطے تیار کرنے کی اجازت فراہم کرنا بھی ہے۔
سول سوسائٹی نے جرمن وزارت کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ لابی کنٹرول نامی غیر سرکاری ادارے کے ترجمان میکس بینک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہمیں وفاقی مسابقتی اتھارٹی کے لیے مزید تیز رفتار وسائل کی ضرورت ہے تاکہ تیل کی صنعت اپنی مارکیٹ کی طاقت کا غلط استعمال نہ کر سکے اور نہ حد سے زیادہ منافع کما سکے۔‘‘
بین نائٹ ) ش ر/ ا ا)