کنکون ماحولیاتی کانفرنس، سمجھوتے پر اتفاق
11 دسمبر 2010یہ کانفرنس دو ہفتے جاری رہنے کے بعد جمعہ کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے آخری روز جس سمجھوتے پر اتفاق کیا گیا، اس کا مسودہ کانفرنس کے میزبان ملک میکسیکو نے تشکیل دیا تھا اور اس پر بولیویا کے اعتراضات کے باوجود اتفاق کر لیا گیا۔
اس معاہدے میں کاربن کے اخراج میں وسیع تر کمی کی ضرورت پر زور تو دیا گیا ہے لیکن اس حوالے سے جن ممالک نے وعدے کئے ہیں، وہ پورے کیسے کئے جائیں گے، اس بارے میں کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔
پھر بھی ایک پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت پسماندہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے فنڈز فراہم کئے جائیں گے۔ اس مقصد کے لئے گرین کلائمیٹ فنڈ قائم کیا جا رہا ہے، جس میں 2020ء تک سالانہ 100ارب ڈالر رکھے گئے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں میں معاونت کے لئے ایک کمیٹی بھی قائم کی جا رہی ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک کو جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لئے فنڈ فراہم کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے، جس کے لئے طریقہ کار طے کر لیا گیا ہے۔
کنکون کانفرنس کے آخری ہفتے کے دوران مذاکرات میں بعض ممالک کیوٹو پروٹوکول کی مخالفت کرتے رہے تاہم بالآخر وہ بھی اس سمجھوتے پر راضی ہو گئے۔ اس حوالے سے اہم ممالک جاپان، چین اور امریکہ نے بھی ایک ایک کر کے اس معاہدے پر اتفاق کیا۔
ماحولیاتی گروپ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے گورڈن شیفرڈ کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتے میں ابھی تک مشکل نکات ہیں، جنہیں اسی نشست میں حل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کے لئے کچھ وقت درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے دوران اعتراضات نہیں اٹھائے جانے چاہیئں۔
گزشتہ برس ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں متعدد ممالک نے ایک جامع معاہدے پر زور دیا تھا جبکہ کنکون کا سمجھوتہ ان کے اس مطالبے کے تناظر میں محدود ہے۔ تاہم اس پر اتفاق رائے کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی سینیئر پالیسی ایڈوائزر تارا راؤ کہتی ہیں، ’مجموعی طور پر ہم کوپن ہیگن سے آگے نکل آئے ہیں، وہ ایک برا خواب تھا، جسے ہم نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ وقت مختلف ہے۔‘
مارشل آئیلینڈز کے ڈین بیالیک کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اب بہت ممکن دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ کے ماحولیاتی سفیر ٹوڈ سٹیرن نے کہا کہ یہ معاہدہ بھلے ہی بھرپور نہ ہو، لیکن آگے بڑھنے کی بنیاد ضرور ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: کشور مصطفیٰ