’کُرس جیسے دوست ہوں تو میرکل کو دشمنوں کی کیا ضرورت‘
18 جنوری 2018آسٹریا میں سباستیان کُرس صرف 31 برس کی عمر میں آسٹریا کے چانسلر بن گئے ہیں اور یہ عمر وہ ہے کہ انہوں نے قانون کے شعبے کی جامعاتی ڈگری بھی ابھی مکمل نہیں کی۔ اس سے واضح ہے کہ اپنے عزائم کو تکمیل کرنے یا اپنے وعدوں کو ثابت کرنے میں ابھی کُرس کو ایک طویل عرصہ درکار ہے۔
آسٹریا: سباستیان کُرس نے کامیابی کا اعلان کر دیا
دنیا کے کم عمر ترین حکمران اب آسٹریا کے سباستیان کُرس ہوں گے
آسٹریا کے وزیر ہیڈ اسکارف پر پابندی کے لیے کوشاں
آسٹریا کے چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیرملکی دورے پر جرمن دارالحکومت برلن پہنچنے والے کُرس سے ایسے اشارے تاہم ملتے ہیں کہ وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے سنجیدہ ہیں۔ آسٹریا میں کسی ’سپراسٹار‘ کی طرح سیاسی افق پر ابھرنے والے کُرس کی یہی خوداعتمادی تھی، جو انہیں اتنا جلدی چانسلر کے عہدے تک لے آئی۔
کُرس عوامیت پسند جذبات کےحامل ہیں اور اور ایسے بہت سے معاملات پر عملی اقدامات اٹھا سکتے ہیں، جو کسی دوسرے سیاست دان کے لیے کرنا آسان نہیں۔ ایک طرف آسٹریا میں کُرس انتہائی دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی (FPÖ) کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں اور دوسری جانب فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ اور اس جماعت کی قائد مارین لے پین سے بھی ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ ادھر جرمنی میں چانسلر میرکل انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی کے ساتھ حکومت سازی کے خیال کوئی ہی مسترد کر چکی ہیں۔ میرکل کہہ چکی ہیں کہ ایسے کسی اتحاد کو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
جرمنی میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچئین ڈیموکریٹک یونین CDU کو گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی تو ملی، تاہم ماضی کے مقابلے میں اس کی کارکردگی اتنی بری تھی کہ حکومت سازی کے لیے اسے اپنی حریف جماعت ایس پی ڈی سے اتحاد کرنا پڑ رہا ہے۔ سی ڈی یو کے متعدد رہنماؤں کا کہنا ہے کہ میرکل جماعت کو قدامت پسند روایتی رنگ سے دور لے گئی ہیں، جس کا فائدہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو ہوا ہے اور وہ حالیہ انتخابات میں پہلی مرتبہ اتنی زیادہ نشستیں جینے میں کامیاب ہوئی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ قریب سو دن سے حکومت سازی کی کوششوں میں مصروف میرکل اب سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہیں، تاہم جرمنی میں سیاسی بے یقینی کچھ کم بیشی کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ دوسری جانب چانسلر کُرس نے برلن میں میرکل سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ اپنے ملک ایک ’مستحکم‘ حکومت پر انتہائی ’خوش‘ ہیں اور چاہتے ہیں کہ جرمنی میں بھی سیاسی استحکام واپس لوٹے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اگرچہ ملاقات کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان دونوں میں ’کتنا کچھ مشترک‘ ہے، تاہم مہاجرین کے موضوع سے لے کر یورپی انضمام تک، قریب تمام ہی اہم موضوعات پر دونوں رہنماؤں کی سوچ بالکل مختلف ہے البتہ ایک قدر دونوں میں مشترک ضرور ہے اور وہ یہ کہ دونوں ایک ’مستحکم‘ حکومت چاہتے ہیں۔