کہیں یہ بھی ن لیگ توڑنے کی کوشش تو نہیں؟
2 اکتوبر 2017مسلم لیگ کا دعویٰ ہے کہ یہ خبر من گھڑت ہے جب کہ کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ خبر درست ہے لیکن اس کا اس موقع پر افشا ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کچھ طاقتیں مسلم لیگ کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ نون لیگ کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق نے اس خبر پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ بالکل من گھڑت خبر ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جن ارکان اسمبلی اور ارکانِ سینیٹ کے نام اس میں آئے ہیں، انہوں نے پارٹی سے رابطہ کر کے ان الزامات کی بھر پور تردید کی ہے۔‘‘
نواز شریف کے بیٹوں کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
کیا یہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست ٹکر ہے؟
نواز شریف احتساب عدالت میں پیش
ظفر الحق نے کہا ان کو نہیں معلوم کہ اس طرح کی خبریں کون چلوا رہا ہے۔ ’’مجھے نہیں معلوم کونسے عناصر اس خبر کے پیچھے ہیں اور ایسی خبریں چلوا کر وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ معروف تجزیہ نگار ضیاء الدین نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کے رہنماوں کے کالعدم تنظیموں سے رابطے رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ پر یہ الزام تھا۔ شہباز شریف نے تو کھلے عام طالبان کو کہا تھا کہ ان پر کیوں حملے کیوں کیے جاتے ہیں۔‘‘
ضیاالدین کے مطابق، ’’طالبان نے خود پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی پر حملے کرنے کی دھمکی دی تھی اور دوہزار تیرہ میں ان تینوں پارٹیوں کو انتخابی مہم بھی نہیں چلانے دی لیکن ن لیگ اور تحریک انصاف مزے سے اپنی اپنی مہم چلا رہے تھے۔ تو یہ بات واضح ہے کہ ان کے تعلقات تو ہیں لیکن اس وقت اس خبر کا افشا ہونا اس بات کی غماز ہے کہ جی ایچ کیو ن لیگ کو تقسیم کرنا چاہتا ہے اور یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ضیاالدین نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ خبر صیح ہے۔ نواز شریف نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ایک دائیں بازو کی جماعت کے رہنما کے طور پر کیا لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے ان میں تھوڑی بہت تبدیلی آرہی تھی۔ مثال کے طور پر انہوں نے ڈاکڑ عبدالسلام کے حوالے سے ایک سینٹر منصوب کیا۔ شرمین عبید چنائے سے ملاقات کے دوران خواتین کے حقوق پر بہت ترقی پسندانہ باتیں کیں۔ ہولی کی تقریب میں بہت سیکولر تقریر کی۔ تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ ذہنی تبدیلی اور بین الاقوامی برادری کے دباؤ کے پیشِ نظر انہوں نے واقعی اس طرح کے احکامات صادر کیے ہوں۔ آخر نواز شریف نے ممتاز قادری کو پھانسی اور حافظ سعید کو بند کرنے کا فیصلہ بھی تو کیا تھا۔ ‘‘
ضیاالدین نے مزید کہا، ’’اب اگر ن لیگ یہ بتائے گی کہ واقعی میاں صاحب نے ایسے احکامات دیے تھے تو ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑ جائے گی اور یہ تیس سے زائد ارکان بھاگ جائیں گے، جس سے پارٹی میں بڑے پیمانے پر انتشار ہو سکتا ہے اور اس کا فائدہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہوگا۔‘‘
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے خیال میں سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے درمیان تعلقات ہوتے ہیں لیکن اصل مسئلہ ان کی نوعیت کا کہا۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نون لیگ اور اس طرح کی تنظیموں میں تعلقات ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اس طرح کے تعلقات صرف ووٹ لینے کی حد تک تھے یا ن لیگ کے رہنماوں نے اس طرح کی تنظیموں کی مالی مدد بھی کی تھی۔‘‘
سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں اس خبر کا آنا ن لیگ کے لیے مشکلات بڑھا سکتا ہے،’’میرے خیال میں یہ نون لیگ کو تقسیم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ نون لیگ کا مذہبی ووٹر اس سے ناراض ہے۔ شہباز شریف نے ابھی داتا دربار پر حاضری دے کر اس ووٹر کو واپس لانے کی کوشش کی ہے لیکن ایسی خبریں اس طرح کی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔‘‘ ڈوئچے ویلے نے ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان سے متعدد مرتبہ رابطہ کر کے اس خبر کے حوالے سے تصدیق کرنے کی کوشش کی اور انہیں پیغامات کے ذریعے بھی تاثرات کی درخواست کی۔ تاہم ڈی جی کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔